سچ خبریں: سعودی عرب کے امریکہ اور صیہونی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے منظرعام پر آنے والی متضاد خبریں سعودی شرائط کو پورا کرنے کے لیے فریقین کے درمیان سودے بازی کے اعلیٰ دباؤ کے عمل کو ظاہر کرتی ہے۔
جوں جوں امریکی صدارتی انتخابی مہم کا وقت قریب آرہا ہے، بائیڈن حکومت کی خارجہ پالیسی اور بلنکن سلیوان کی سربراہی میں قومی سلامتی کی ٹیم نے ریاض اور تل ابیب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے منصوبے کو اپنے ایجنڈے میں شامل کیا لیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب اور صیہونی حکومت کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے تین چیلنجز
اس طویل میراتھن میں بعض اوقات وائٹ ہاؤس کی قریبی بعض شخصیات اور میڈیا شخصیات جنوری 2024 تک سعودی عرب اور صیہونی حکومت کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے امکان کی باتیں کرتی ہیں جبکہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ امریکہ کی جانب سے نوجوان سعودی ولی عہد کی شرطوں کا نہ مانان اس معاہدے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
تازہ ترین خبروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اور نیتن یاہو کی حکومت کی جانب سے ریاض کے مطالبات کو پورا کرنے میں ناکامی کی وجہ سے مذاکرات رک گئے ہیں، یروشلم پوسٹ اخبار نے ایلاف کے حوالے سے بتایا ہے کہ نیتن یاہو حکومت کے ساتھ امن مذاکرات معطل کرنے کے ریاض کے فیصلے کا انکشاف ہوا ہے نیز سعودی عرب نے اس معاملے پر واشنگٹن کے ساتھ بھی بات چیت کی ہے اور صیہونی انتہا پسند کابینہ کو مذاکرات کے جاری رکھنے میں ایک بڑی رکاوٹ سمجھا ہے۔
اس خبر کے جواب میں امریکی محکمہ خارجہ نے ایک بیان جاری کیا جس میں ریاض اور تل ابیب کے درمیان مذاکرات کی معطلی کی تردید کی گئی، تاہم ایسا لگتا ہے کہ نیتن یاہو حکومت کو ابراہیم معاہدے کے احیاء کی خواہش کے باوجود سعودی عرب اور آزاد فلسطینی ریاست کو تزویراتی مراعات دینے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے،اسی مناسبت سے اس تجزیہ میں ہم اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کریں گے کہ آیا سعودی عرب اور صیہونی حکومت تعلقات معمول پر آنے کے مرحلے پر ہیں یا نہیں۔
سعودی عرب کی شرطیں کیا ہیں؟
"متصادم مفادات” سعودی عرب اور صیہونی حکومت کے درمیان مذاکرات میں تعطل کو بیان کرنے کے لیے بہترین لفظ ہے۔ امریکی صدارتی انتخابات سے چند ماہ قبل رپبلکنز ایران، چین اور روس کے خلاف ایک متحدہ محور بناتے ہوئے ’’متحدہ مشرق وسطیٰ‘‘ کے منصوبے کو عملی جامہ پہنا کر خارجہ پالیسی کے میدان میں ایک بڑی کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ ریاض کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے سے، تل ابیب خطے کے سیاسی و اقتصادی نظام میں شامل ہونے اور دیگر عرب اسلامی ممالک کے لیے ابراہیم معاہدے میں شامل ہونے کا راستہ کھولنا چاہتا ہے کیونکہ نیتن یاہو قدامت پسند سنی ممالک میں ریاض کی پوزیشن سے بخوبی واقف ہیں اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو ظاہر کرتے ہوئے علاقائی میکانزم میں داخل ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن سعودی دوسرے مقاصد اور مفادات کے پیچھے ہے۔
وال سٹریٹ جرنل کے مطابق محمد بن سلمان تل ابیب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے بدلے اسٹریٹجک رعایتیں لینے کا ارادہ رکھتے ہیں جن میں سعودی عرب میں یورینیم کی افزودگی کا حق حاصل کرنا، جاپان اور جنوبی کوریا کے ساتھ امریکی معاہدوں جیسے فوجی تحفظ کی ضمانتیں، واشنگٹن ریاض اقتصادی تعلقات کو وسعت دینا اور میڈیا کے حلقوں میں سعودی ولی عہد پر ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تنقید کو روکنا شامل ہے، اس کے علاوہ اسلامی دنیا میں اپنا امیج برقرار رکھنے کے لیے سعودی عرب ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے شاہ عبداللہ کے منصوبے (2002) پر عمل درآمد کے لیے کوشاں ہیں۔
البتہ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ سعودی عرب نے اس منصوبے کو نظرانداز کر دیا ہے اور وہ صرف اس کی بعض شقوں پر عمل درآمد چاہتا ہے، جیسے فلسطینی ریاست کا قیام یا مغربی کنارے میں صیہونی بستیوں کی تعمیر کو روکنا، فلسطین میں سعودی عرب کے پہلے غیر مقیم سفیر کے طور پر نائف السدیری کی تقرری اس سمت میں ایک قدم سمجھا جاتا ہے۔
اپنے مطالبات کی تکمیل کے لیے سعودی عرب صرف مذاکرات کی میز تک محدود نہیں ہے بلکہ وہ متبادل راستے بھی تلاش کر رہا ہے۔ اپنی شرائط پوری کرانے کے لیے ریاض نے علاقائی اور ماورائے علاقائی طاقتوں کے ساتھ تعلقات میں مثبت توازن کی پالیسی اپنائی ہے مثال کے طور پر، امریکہ اور یورپی حکومتوں کی جانب سے سعودی عرب کو جدید ڈرون بھیجنے سے انکار کرنے کے بعد، سعودی ڈیفنس انڈسٹریز (SAMI) نے Bayraktar کے ساتھ ایک معاہدے میں 3 بلین ڈالر مالیت کے اکنجی ڈرونز کو سعودی عرب میں مقامی بنانے کا اعزاز حاصل کیا۔ جوہری ٹیکنالوجی کے میدان میں، ماسکو کی جانب سے سبز بتی ملنے کے بعد، ریاض نے "Ros Atom” کمپنی کو اس ملک میں جوہری پاور پلانٹ کی تعمیر کے امیدواروں میں سے ایک کے طور پر متعارف کرایا ہے نیز چینی اور فرانسیسیوں نے بھی سعودی عرب میں نیوکلیئر پاور پلانٹ بنانے کے لیے ایسی ہی تجاویز پیش کی ہیں۔
سی این این کے مطابق سیٹلائٹ تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ چینی سعودی عرب کی سرزمین کے اندر بیلسٹک میزائل بنانے میں اس ملک کی مدد کر رہے ہیں، اس کے علاوہ بیجنگ معاہدے اور ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی نے اس ملک کی شمالی اور مشرقی سرحدوں میں سعودی سکیورٹی خدشات کو کم کر دیا، اس صورتحال نے امریکہ اور صیہونی حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر ریاض کی پوزیشن کو مضبوط کیا ہے،ایسی صورت حال میں بائیڈن کو یا تو سعودی ولی عہد کی خواہشات کو تسلیم کرنا ہوگا یا چین، روس اور اسلامی جمہوریہ ایران جیسے ممالک کے ساتھ سعودی عرب کے اسٹریٹجک تعلقات بڑھتے ہوئے دیکھنے کے لیے تیار رہنا ہوگا،تاہم دوسرے منظر نامے کا ادراک مغربی ایشیا میں واشنگٹن کی جیواسٹریٹیجک پوزیشن اور انڈو پیسیفک خطے میں اس ملک کے حریفوں کی برتری کو کمزور کر دے گا۔
ریاض کی شرائط پر واشنگٹن اور تل ابیب کا منفی ردعمل
بائیڈن اور نیتن یاہو کی حکومت کی طرف سے سعودی شرائط میں سے ہر ایک کی تکمیل، شامات کے علاقے کے سکورٹی آرڈر کو تبدیل کرتے ہوئے، مغربی ایشیائی خطے میں صیہونیوں کی فوجی طاقت کو محدود کر دے گی مثال کے طور پر اگر واشنگٹن ریاض کو (جاپان اور جنوبی کوریا کی طرح) سکیورٹی کی ضمانتیں فراہم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو تل ابیب خطرے کی صورت میں اپنے علاقائی حریف کے خلاف شاید ہی فوجی آپشن استعمال کر سکے۔
مزید پڑھیں: سعودی عرب اور صیہونی حکومت کے تعلقات کی شرطیں؟
نیویارک ٹائمز کے مطابق اس سکیورٹی معاہدے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے مذاکراتی عمل میں امریکہ کے عزم میں سعودی سرزمین کے علاوہ پورے خطے کے عرب ممالک کے مفادات شامل ہیں۔ بلاشبہ موساد کے سربراہ ڈیوڈ بارانے اس سکیورٹی معاہدے کی حمایت کرتے ہوئے اس کا بنیادی مقصد سعودی عرب کے خلاف ایران اور مزاحمت کے محور مقابلہ قرار دیا ہے۔
خلاصہ
مشرق وسطیٰ میں صیہونی حکومت کی اسٹریٹجک فوجی برتری کو برقرار رکھنے کے لیے امریکہ کے عزم، سعودی عرب کے اندر یورینیم کی افزودگی کے خلاف اسرائیلی حکام کی مخالفت، نومبر میں امریکی صدارتی انتخابات کی قربت اور سعودی ایران تعلقات کے معمول پر آنے جیسے متغیرات کی وجہ سے سعودی حکام کی تل ابیب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے پر آمادہ نہیں اس لیے ایسا لگتا ہے کہ ابرہیم معاہدہ میں ریاض کا الحاق فی الوقت معطل ہو گیا ہے، تاہم سعودی عرب اور صیہونی حکومت کے درمیان "نیچرلائزیشن” اور "گرم امن” کے اصولی منصوبے ابھی تک جاری ہیں اور ایسا نہیں لگتا کہ سعودی اور اسرائیلی لیڈروں کی مرضی میں کوئی تزویراتی تبدیلی آئی ہے، تاہم کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نومبر 2024 سے پہلے ریاض تل ابیب کے تعلقات کو معمول پر لانے والا واحد عنصر صہیونیوں کا محمد بن سلمان کی شرائط کو تسلیم کرنا ہے۔