سچ خبریں:مشہور کہاوت ہے کہ ڈیموکریٹس بنیادی طور پر میٹھی چھری سے گلا کاٹتے ہیں جو افغانستان ، عراق ، لبنان ، یمن ، شام اور فلسطین میں دیکھنے کی مل رہا ہے۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ آئندہ ستمبر میں یعنی اب سے تقریبا دو ماہ بعد افغانستان سے روانہ ہوجائے گا،عراقی وزیر اعظم مصطفی الکاظمی دس دن میں بائیڈن سے ملنے والے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ان کے اور بائیڈن کے درمیان تبادلہ خیال کے موضوعات میں سے ایک عراق سے امریکی انخلا کا معاملہ ہوگا،ادھر لبنان میں مہینوں کے غور و فکر کے بعدوزیر اعظم حکومت کی تشکیل سے دستبردار ہوگئے، یمن میں جبکہ مارب مزاحمتی طاقتوں کے ہاتھوں میں آنے والا ہے ، بیضا محاذ القاعدہ اور یمنیوں کے اول درجہ کے دشمن امریکہ کے تعاون سے متحرک ہے،درایں اثنا شام میں قیصر پابندیوں کے دباؤ کا دائرہ لمحہ بہ لمحہ شدت اختیار کرتا جارہا ہے جبکہ فلسطین میں جنگ بندی ،غزہ کی امداد اور سفارتی سفر کے بارے میں بات چیت اس قدر شدید ہےتاکہ ہزار ٹکڑوں پر بننے والی نئی صیہونی کو سانس لینے کا موقع مل سکے اس طرح کے اور بھی بہت سارےمسائل کیا یہ سب کے سب محض ایک اتفاق ہیں؟
ایسی صورتحال میں خطے کے عوام اور ان ممالک کے لوگ اگرچہ وہ اس صورتحال کو نازک نہ بھی سمجھیں تب بھی اسے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور بحران قرار دیتے ہیں کیونکہ یہ بدامنی اور بحران صرف ایک ہی ملک میں نہیں ہے،صورتحال غیر مستحکم ہے اور اس مسئلے کو کم از کم اس وقت تک اسی طرح رکھنا ہے جب تک امریکہ کے لیے خطہ کو چھوڑنے کی شرائط فراہم نہ کی جائیں اور اسرائیلی حکومت اپنی پوری صحت یابی حاصل نہ کر لے نیز صیہونیوں کے ساتھ تعلقات پرمعمول پر لانے کے منصوبے کی تکمیل تک صورتحال کر پرآشوب رکھنا ہے،دونوں ہی صورتوں میں جب تک اسرائیل کی سلامتی کو یقینی نہیں بنایا جاتا صورتحال ایسی ہی رہے گی۔
کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ بائیڈن کی ٹرمپ سے ناراضگی کے باوجودبائیڈن انتظامیہ میں کئی عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات معمول پر لانے کے معاملے کو کیوں منظور کیا گیا؟ کیا ایسا نہیں ہے کہ خطے میں امریکی حکمت عملی کا واحد باقی عنصر اسرائیل کی حمایت اور حفاظت کرنا ہے اور اسرائیل کو مضبوط اور مدد فراہم کرنے کی ضرورت ہے؟ کیا اس طرح کے ہنگامہ خیز اور معاندانہ صورتحال میں امریکہ اسرائیل کو تنہا چھوڑ سکتا ہے؟
درایں اثنانئے افغانستان کی صورتحال ایک نمونہ ثابت ہوسکتی ہے جس کی بنا پر عراقی حکومت کو قائل کیا جاسکتا ہے کہ وہ کم سے کم تکنیکی طور پرامریکہ کو اپنے ملک میں رہنے گے جبکہ یمن القاعدہ سےشر سے بچنے کے لیے امریکی امن منصوبوں کو قبول کرے ، لبنان حکومتی لڑائی سے تنگ آکر کسی بھی حکومت کو قبول کرنےکے لیے تیار ہوجائے جبکہ غزہ اپنا پیٹ بھرنے کے لیے مزاحمت کے اہداف سے پیچھے ہٹ جائے اور یہ مزاحمت بیت المقدس کی محافظ کے بجائے بلکہ غزہ کی محافظ بننے پر راضی ہوجائے نیز آخر کار شام قیصرقانون کی پابندیوں کے ملبے میں دب کر ہاتھ کھڑے کر لے۔
یہاں تک کہ اگر امریکہ افغانستان سے نکل بھی جاتا ہے تو بھی اس ملک کی سرحدوں میں چھپا بیٹھا رہے گاجبکہ اس کا عراق سے دستبرداری کا کوئی ارادہ نہیں ، امریکہ لبنان ، شام اور فلسطین کی جانب سے تینوں اطراف سے محصور اسرائیل کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتا ، امریکہ بحیرہ احمر اور باب المندب پر یمن کے غلبہ حاصل کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا ،ایک جملے میں یوں کہا جائے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ طاقت کی زبان کو چھوڑ کر التماس کی زبان نہیں اختیار کرنے والا۔
خطے کے لوگوں کو مخصوص خطرات سے نمٹنے میں الجھا کر رکھنا ضروری ہے تاکہ اسرائیل سلامت رہے اور ریاستہائے متحدہ کو خطے میں رہنا اور طویل تر قیام کے لئے نئے دعوت نامے وصول کرنے کا جواز رہے۔
افغانستان مستقل ہنگاموں کا شکار ہے ، عراق انتخابات سے محروم ہے ، شام اور فلسطین مستقل بھوک کا شکار ہیں ، یمن القاعدہ کے بحرانوں میں پھنسا ہوا ہے جبکہ لبنان مستقل دیوالیہ پن میں مبتلا ہے … یہ بات مشہور ہے کہ ڈیموکریٹس بنیادی طور پر کند چھری سے گلا کاٹتے ہیں۔