سچ خبریں: فلسطین کی حمایت میں امریکی طلباء کا اضافہ اور عرب دنیا میں فلسطین کی حمایت کی اجازت دینا غزہ کے حوالے سے سعودی حکمت عملی میں تبدیلی کی وجوہات میں سے ہیں۔
سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض نے گزشتہ دنوں غزہ کے بارے میں دو اجلاسوں کی میزبانی کی، اس کالم میں ان اجلاسوں کے مقاصد اور اہمیت کا جائزہ لیا گیا ہے۔
غزہ جنگ کے بارے میں سعودی عرب کا موقف
حالیہ برسوں میں صیہونی حکومت نے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کو اپنی خارجہ پالیسی کا سب سے اہم ہدف قرار دیا ہے، اگرچہ طوفان الاقصیٰ نے اس ہدف کو جلد حاصل کرنے سے روک دیا لیکن صہیونی اب بھی امریکہ کی حمایت سے اس اہم ہدف کو حاصل کرنے کی امید رکھتے ہیں جبکہ غزہ میں صیہونی حکومت کی نسل کشی کے ایک ماہ بعد سعودی عرب نے غزہ پر اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس کی میزبانی کی۔
یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کی کیا شرط رکھی ہے؟
ریاض نے غزہ میں ہونے والی نسل کشی کی مذمت تو کی لیکن اس جرم کو روکنے کے لیے کوئی سنجیدہ اقدام نہیں کیا بلکہ اپنے مہتواکانکشی ملکی مقاصد کے حصول کو ترجیح دی، دریں اثنا پچھلے 7 مہینوں میں غزہ کے حوالے سے امریکی حکام نے مغربی ایشیائی خطے کے جو سفر کیے ان میں سے زیادہ تر کی منزل سعودی عرب تھا، تاہم گزشتہ ماہ سعودی عرب نے مسئلہ فلسطین پر زیادہ توجہ دی اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام پر زور دیا۔
ریاض میں ہونے والے گزشتہ ہفتے کے اجلاس
حالیہ دنوں میں سعودی عرب نے غزہ کے بارے میں دو اجلاسوں کا انعقاد کیا جس میں چھ فریقی عرب وزارتی مشاورتی گروپ کا اجلاس بھی ریاض میں منعقد ہوا، اس کے علاوہ ریاض شہر میں غزہ کی صورتحال پر حالیہ غیر معمولی مشترکہ عرب اور اسلامی سربراہی اجلاس کی طرف سے مقرر کردہ وزارتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس کی صدارت سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان اور ان کے نارویجن ہم منصب اسپین بارتھ ایڈے نے کی، اس اجلاس میں یورپی ممالک کے وزرائے خارجہ اور نمائندوں کے درمیان غزہ جنگ کے خاتمے کی فوری ضرورت پر بات چیت ہوئی۔
ان اجلاسوں میں چار امور پر زور دیا گیا:
1۔ ایک آزاد فلسطینی ریاست کی تشکیل
2۔ غزہ میں نسل کشی کو روکنا
3۔ غزہ کو انسانی امداد فراہم کرنا
4۔ صیہونی قیدیوں کی رہائی
غزہ جنگ کے حوالے سے سعودی عرب کے زیادہ متحرک ہونے کی وجوہات
اہم سوال یہ ہے کہ کیا ان اجلاسوں کے انعقاد کو غزہ کے حوالے سے سعودی عرب کی حکمت عملی میں تبدیلی تصور کیا جا رہا ہے؟ اس سوال کا جواب نفی میں ہے، سعودیوں نے صرف غزہ کی طرف اپنی بے حسی کو کم کیا ہے، اس نقطہ نظر کی اس تبدیلی کی کئی اہم وجوہات ہیں:
1۔ امریکی اور یورپی طلباء کی تحریک
غزہ کے حوالے سے سعودی حکمت عملی کی تبدیلی کا ایک اہم عنصر فلسطین اور غزہ کی حمایت میں امریکی اور یورپی طلباء کی تحریکاور یروشلم کی غاصب حکومت کے جرائم کی مذمت کی وجہ سے ہے، غزہ میں نسل کشی کے لیے امریکہ کی حمایت کے باعث اس ملک کے ماہرین تعلیم بائیڈن حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں نیز مغربی تعلیم یافتہ اور اشرافیہ طبقہ غزہ کے عوام کے خلاف صہیونیوں کے جرائم پر شدید احتجاج کر رہا ہے اور اس کے لیے گرفتار ہونے سے بھی نہیں ڈرتا جبکہ عرب ممالک کی مسلسل خاموشی اور بے عملی ان کے لیے ایک سنگین چوٹ اور سیاہ ریکارڈ ہے، ریاض میں اجلاس ایسے موقع پر ہوئے ہیں کہ اگر ان کے مطالبات اور حتمی بیانات پر سنجیدگی سے عمل نہ کیا گیا تو یہ مسئلہ فلسطین میں ان کی بڑی ناکامی ہوگی۔
2۔ فلسطین عرب اور اسلامی رائے عامہ کے لیے بدستور انتہائی اہمیت کا حامل ہے
غزہ جنگ کے حوالے سے سعودی عرب کی حکمت عملی میں تبدیلی کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین اب بھی عرب اور اسلامی رائے عامہ کے لیے ایک اہم مقام رکھتا ہے، افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ برسوں میں عرب دنیا میں مسئلہ فلسطین کی قانونی حیثیت کو بدنام کرنے کی بہت سی کوششیں کی گئیں،صیہونیوں کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا ایک اہم مقصد بھی یہی مسئلہ تھا، تاہم غزہ کی جنگ اور فلسطینیوں کے خلاف صیہونی حکومت کی نسل کشی نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ مسئلہ فلسطین اور فلسطین کی حمایت آج بھی عرب اور اسلامی رائے عامہ کے لیے ایک نمایاں مقام اور قانونی حیثیت رکھتی ہے۔
اردن، یمن، بحرین، الجزائر وغیرہ کے عوام کے پے در پے مظاہروں نے اس مسئلے کی سچائی کی تصدیق کی لہٰذا ایسی صورت حال میں ریاض محض اپنے ملکی ترقی کے اہداف کو حاصل نہیں کر سکتا اور مغربی ایشیا کی صورتحال بالخصوص مسئلہ فلسطین سے لاتعلق نہیں رہ سکتا، غزہ کے بارے میں عدم توجہی اس ملک کی علاقائی حیثیت اور مقام کی تنزلی کا باعث بن سکتی ہے بالکل اسی طرح غزہ کے لیے سنجیدہ، فیصلہ کن اور فعال حمایت بھی اسے اوپر لے جانے کا باعث بن سکتی ہے۔
نتیجہ
ایک طرف صیہونی حکومت سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کر رہی ہے اور دوسری طرف ریاض کو مسئلہ فلسطین کی سنجیدہ اور وسیع حمایت کرنے کو روکنے اور اس مسئلے میں فعال کردار ادا کرنے سے روکنے کی کوشش کر رہی ہے، غزہ میں 7 ماہ سے زائد کی نسل کشی کے بعد ایسا لگتا ہے کہ سعودی عرب نے غزہ کی جنگ کے حوالے سے اپنی حکمت عملی تبدیل کی ہے۔
مزید پڑھیں: خطے میں سلامتی اور استحکام کا واحد راستہ فلسطینی ریاست کا قیام ہے: سعودی
فلسطین کی حمایت میں امریکی اور یورپی طلباء کا اضافہ، نیز عرب دنیا میں فلسطین کی اجازت سعودی عرب کی حکمت عملی میں تبدیلی کی بنیادی وجوہات ہیں، اس لیے ریاض کی موجودہ کردار سازی کو حکمت عملی میں تبدیلی یا تل ابیب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے سے انحراف بھی نہیں سمجھا جا سکتا۔
مشہور خبریں۔
صیہونیوں نے غزہ کے کتنے رہائشی یونٹ مکمل طور پر تباہ کر دیے ہیں؟
نومبر
بلوچستان: نوشکی میں پولیس موبائل پر فائرنگ، 4 اہل کار جاں بحق
مارچ
اقتصادی رابطہ کمیٹی نے چینی کی برآمدات میں اضافے کی منظوری دے دی
اکتوبر
انتخابی معاملات میں الیکشن کمیشن اسپیشلسٹ ہے، چیف جسٹس
اکتوبر
امریکہ اور یورپ یوکرین کی جڑیں کیے کاٹ رہے ہیں؟
جولائی
مشرقی شام میں امریکی دہشت گردوں کی بڑھتی ہوئی موجودگی
جون
روس کے خلاف یورپی یونین کی پابندیوں میں ایک سال کی توسیع
جون
صہیونی آبادکاروں کا مسجد الاقصیٰ پر حملہ؛ مذہبی اشتعال انگیزی میں اضافہ
فروری