سچ خبریں: اگرچہ صہیونی حکام فوجی خودکشیوں کے صحیح اعداد و شمار بتانے سے انکاری ہیں لیکن انہوں نے ان کے دماغی امراض کے علاج کے لیے اقدامات کیے ہیں، ایک مسئلہ جو غزہ جنگ میں صیہونی فوجیوں میں خودکشی کے بحران کا ثبوت ہے۔
غزہ کی پٹی پر صیہونی حکومت کے مجرمانہ حملوں کو تین ماہ بیت چکے ہیں اور اس عرصے کے دوران غزہ کے اکیس ہزار سے زیادہ بے گناہ اور بے دفاع عوام جن میں کم از کم دو تہائی خواتین اور بچے شامل ہیں، شہید ہو چکے ہیں،تاہم یہ نسل کشی دوسری طرف کو بھی مہنگی پڑی ہے اور سینکڑوں صیہونی فوجیوں کی ہلاکت کے علاوہ اس سے ذہنی و نفسیاتی مسائل کی لہر میں تیزی آئی ہے جس کا زیادہ تر خاتمہ خودکشی پر ہوتا ہے۔
خودکشیوں کے بڑھتے ہوئے رجحان پر صیہونی حکومتی رہنماوں کا تشویشناک نقطہ نظر
غزہ جنگ کے بعد صہیونی فوجیوں میں خودکشی کے رجحان کو بڑھانے میں خوف، اضطراب، پچھتاوا وغیرہ جیسے عوامل نے نمایاں کردار ادا کیا ہے،حال ہی میں صیہونی حکومت کے ذرائع ابلاغ کی خبروں سے ظاہر ہوا ہے کہ فوجیوں کی نگرانی کرنے والا محکمہ غزہ میں جنگ کی وجہ سے ذہنی امراض میں مبتلا فوجیوں کی مدد کے لیے ایک پروگرام شروع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:فوج کےذہنی بحران کو حل کرنے کے لیے اسرائیلی فوج کا خصوصی پروگرام
صہیونی اخبار یدیوت احرونٹ نے مذکورہ محکمہ میں موجود اہلکاروں کے حوالے سے خبر دی ہے کہ نرسوں اور نفسیاتی ماہرین کے گروپ بنائے جائیں گے جو خودکشی کا رجحان رکھنے والے افراد کا علاج کر سکیں گے۔
اس اخبار کے مطابق غزہ کی جنگ میں صیہونی فوج کا بہت زیادہ جانی نقصان ہوا ہے اور ان میں سے ایک بڑی تعداد جسمانی طور پر معذور ہے جبکہ بعض دیگر ذہنی امراض میں مبتلا ہیں۔
صیہونی اخبار ہارٹیز نے پہلے بتایا تھا کہ کم از کم 500 صہیونی فوجی نفسیاتی مریض بن چکے ہیں،غزہ جنگ کے آغاز سے ہی ان فوجیوں کو نفسیاتی مسائل، ذہنی عارضے، حادثے کے بعد کے تناؤ وغیرہ کا سامنا رہا ہے۔
2800فوجیوں کے نام ذہنی بحالی کی فہرست میں داخل ہوئے ہیں جن میں سے 3% خطرناک حالت میں ہیں اور 18% صدمے کے بعد ہونے والے تناؤ کی وجہ سے ذہنی مسائل کا شکار ہیں۔
2014کی غزہ جنگ سے خودکشی بحران کا آغاز
دریں اثناء حال ہی میں ذہنی طور پر بیمار صہیونی فوجیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور غزہ میں صیہونی حکومت کی سابقہ جنگوں بالخصوص 2014 کی جنگ میں زیر علاج فوجیوں کی تعداد اب بھی زیادہ ہے اور ان افراد کی تعداد کاکا تخمینہ 13500 سے زیادہ ہے۔
اس سال اگست میں طوفان الاقصیٰ آپریشن کے آغاز سے چند ماہ قبل صہیونی فوجیوں کی خودکشیوں کی تعداد کو کم کرنے کے لیے تل ابیب کی وزارت جنگ کی جدوجہد کا بھی مشاہدہ دیکھنے کو ملا، صہیونی فوجیوں میں خودکشیوں کی تعداد میں اضافے کو دیکھتے ہوئے مذکورہ وزارت نے ان فوجیوں کی ذہنی چوٹوں کے حوالے سے درخواستوں کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دینے کا وعدہ کیا۔
اسی مہینے میں صیہونی حکومت کی وزارت جنگ نے کہا تھا کہ 2014 کی غزہ جنگ میں شریک صہیونی فوجیوں میں خودکشیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے،اسی دوران صہیونی فوج کی کیفر بریگیڈ کے رکن اور ڈونیو نے خودکشی کر لی، صیہونی ٹی وی چینل 12 نے کہا کہ ایک فوجی کی تدفین کے ایک دن بعد جس نے 2014 میں غزہ جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ذہنی پریشانیوں کی وجہ سے خود کو آگ لگا لی تھی۔
یدیوت احرونٹاخبار نے چند روز قبل خود سوزی کرنے والے صہیونی فوجی کے حوالے سے اعلان کیا کہ بار کولیف صہیونی فوج کا ایک رکن جس نے چند روز قبل نیتنیا شہر میں خود کو آگ لگا لی تھی، دم توڑ گیا ہے
رپورٹس میں بتایا گیا کہ صیہونی حکومت کی وزارت جنگ کی جانب سے 2014 کی غزہ جنگ کے دوران جھٹکوں سے پیدا ہونے والی کشیدگی کے باعث جنگ سے متاثرہ فوجیوں میں شامل ہونے کی اس صیہونی فوجی کی درخواست کو مسترد کرنے کے بعد اس نے خود کو آگ لگا لی،عبرانی زبان کے میڈیا نے بتایا کہ اس فوجی کی موت خود سوزی کی وجہ سے لگنے والے زخموں کی وجہ سے ہوئی۔
یاد رہے کہ 2014 کی غزہ جنگ 51 دن تک جاری رہی اور اس میں 2 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوئے جب کہ موجودہ جنگ تین ماہ کے قریب پہنچ رہی ہے اور غزہ کی پٹی میں 20 ہزار سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں، بلاشبہ جنگ کے خاتمے کے بعد ذہنی طور پر پریشان فوجیوں کی تعداد کئی گنا بڑھ جائے گی۔
کئی دہائیوں سے صیہونی فوجیوں کے سروں پر خودکشی کے سائے منڈلا رہے ہیں
ذہنی امراض میں مبتلا صہیونی فوجیوں کی خودکشی صرف 2014 اور موجودہ غزہ جنگ تک محدود نہیں ہے بلکہ حالیہ دہائیوں میں یہ ایک عام واقعہ ہے،کئی بار صہیونی میڈیا نے فوجی دستوں کے ہاتھوں خود سوزی، پھانسی اور گولی مارنے کی خبریں دی ہیں،اگرچہ صیہونی حکومت اپنے فوجیوں میں خودکشیوں کے اعدادوشمار کو اپ ڈیٹ کرنے سے انکاری ہے، لیکن مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ صیہونی فوجیوں میں خودکشی کے واقعات گزشتہ برسوں اور دہائیوں میں عام ہیں۔
کچھ عرصہ قبل تجزیاتی ویب سائٹ الخندق نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا تھا کہ سال 2006، 2008، 2012، 2014 اور 2015 میں جب صیہونی حکومت نے لبنان اور غزہ پر حملہ کیا تو اس حکومت کی فوج کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ایک چوتھائی فوج کی ہلاکتیں خودکشی کی وجہ سے ہوئیں۔
قابض حکومت کے اعدادوشمار کے مطابق 2011 میں 21، 2012 میں 14 اور 2013 میں 6 فوجیوں نے خودکشی کی جبکہ 2014 سے 2021 تک 100 صہیونی فوجی خودکشی کر چکے ہیں۔
صیہونی اخبار کی رپورٹ کے مطابق 2022 میں 14 فوجی اپنی زندگیوں کا خاتمہ کر چکے ہیں جو گزشتہ پانچ سالوں میں سب سے زیادہ تعداد تھی،صہیونیوں کے مطابق زیادہ تر خودکشیاں بیرکوں یا تربیتی کیمپوں میں خدمات انجام دینے کے دوران ہوئیں یعنی جب وہ اپنی ڈیوٹی پر تھے۔
فرار صیہونی حکومت کے فوجی ادارے کے لیے ایک اور مسئلہ ہے اور شائع شدہ اعدادوشمار کے مطابق حکومت کے 36% نوجوانوں نے فوجی خدمات سے کنارہ کشی اختیار کی ہے جس میں خواتین کا حصہ تقریباً 45% ہے،ریزرو فورسز میں خدمات انجام دینے کے بارے میں یہ واضح رہے کہ 60% سے زیادہ ایسا نہیں کرتے، حالانکہ یہ مردوں کے لیے لازمی ہے،غزہ کی جنگ کے دوران خودکشی اور ویرانی کی ایک اور وجہ وحشیانہ تشدد اور عام شہریوں بالخصوص فلسطینی بچوں اور خواتین کا وحشیانہ قتل ہے۔
جب 2000 سے 2022 تک یعنی 22 سالوں میں موجودہ جنگ کے دوران تقریباً 2500 فلسطینی بچے شہید ہوئے جبکہ حالیہ جنگ کے دوران 8000 سے زیادہ بچے بے دردی سے قربان ہوئے تو یہ فطری بات ہے کہ بہت سے صہیونی فوجی ڈپریشن اور ذہنی عارضے کا شکار ہو کر خودکشی کر لیتے ہیں یا کم سے کم فوجی سروس سے فرار کرتے ہیں۔
خودکشی اور ترکِ وطنی کی ایک اور وجہ صیہونی حکومت کی انتہا پسندی بھی ہو سکتی ہے جس کے فوجی اپنے معاشرے اور سیاسی نظام کے لیے قربانی دینے کو تیار نہیں ہیں۔
نیز خودکشی کرنے والے زیادہ تر صہیونی فوجی ایک عرصے سے اپنی مستقبل کے بارے میں پریشانی میں مبتلا ہیں اور مسلسل مایوسی، شدید الجھن اور فوج کی عسکری تنظیم سے تعلق کا احساس نہ ہونے کی حالت میں ہیں۔
خلاصہ
تجربے سے معلوم ہوا ہے کہ اسرائیلی فوج عام طور پر خدمت کے دوران فوجیوں کی خودکشی کی خبریں شائع کرنے سے انکار کرتی ہے اورغزہ کی جنگ میں مارے جانے والے فوجیوں کے حوالے سے بھی یہی حربہ دہرایا گیا ہے،غزہ کی موجودہ جنگ میں جہاں حکومت کے مارے جانے والے فوجیوں کی تعداد 1000 سے تجاوز کر گئی ہے، وہیں حکومت کے سرکاری اعداد و شمار نے جنگ کے 80ویں دن تک صرف 489 افراد کی ہلاکت کا اعلان کیا ہے۔
تل ابیب کے رہنماؤں کا خیال ہے کہ جس طرح غزہ کی جنگ میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کی اصل تعداد کا اعلان مایوسی اور خوف کو ہوا دیتا ہے، اسی طرح خودکشیوں کی تعداد کے بارے میں درست معلومات کا جاری ہونا بھی فوجیوں کو خودکشی پر اکسائے گا۔
مقبوضہ فلسطین میں "بچوں اور نوعمروں کے تحفظ” کی کونسل کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اسپتالوں کے سرکاری اعدادوشمار اور نوجوان صہیونیوں کی خودکشی کی کوششوں کے بارے میں سرکاری رپورٹس کے درمیان اور اس شعبے کے حقیقی اعدادوشمار کے درمیان بہت فرق ہے، اس تحقیق میں مثال کے طور پر ہسپتالوں نے 2011 میں خودکشی کی 700 کوششیں رپورٹ کیں، جبکہ حقیقت میں اس دور حکومت کے نوجوانوں میں خودکشی کی 6000 کوششیں ہوئیں۔
مزید پڑھیں: صیہونی فوجی خودکشی کیوں کر رہے ہیں؟
موجودہ حالات میں صہیونی رہنماؤں کی توجہ ان فوجیوں پر مرکوز ہے جو دماغی امراض میں مبتلا ہیں اور علاج معالجے کی ٹیمیں تشکیل دینے کی کوشش اس حقیقت کو ظاہر کرتی ہے کہ صیہونی حکومت فوجی خودکشیوں کے بحران سے نبرد آزما ہے،بلاشبہ غزہ میں جرائم کے تسلسل اور اضافے کے ساتھ صیہونی حکومت کے بیمار فوجیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہےجو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس صورتحال سے نکلنے کا واحد راستہ خودکشی ہے۔