سچ خبریں: جب کہ غزہ میں تل ابیب کے مسلسل جرائم سے امریکہ اور صیہونی حکومت کے یورپی اتحادیوں کی بامعنی خاموشی اور اکثر و بیشتر واضح ساتھ دینے نے اس چھوٹی سی پٹی کو بچوں، عورتوں اور دیگر بے گناہ لوگوں کا ایک بڑا قبرستان بنا دیا ہے،مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے خلاف تشدد کی مذمت میں امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں کا تیز اور احتجاجی لہجہ سوالیہ نشان بن گیا ہے اور سوال اٹھایا ہے کہ اس دوہرے معیار کی وجہ کیا ہے؟
یہ بھی پڑھیں: غزہ میں صیہونی حکومت کے جنگی جرائم پر ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ
اکتوبر کے آغاز سے صیہونی آباد کاروں نے مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے خلاف تقریباً 350 پرتشدد حملے کیے ہیں، جس میں کم از کم 8 فلسطینی شہری ہلاک، 83 سے زائد افراد زخمی ہوئے اور 1026 اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے، اگرچہ مغربی کنارے میں تشدد کا موازنہ غزہ میں ہونے والے تشدد سے نہیں کیا جا سکتا،تاہم امریکہ اور متعدد مغربی ممالک جو غزہ کے عوام کے قتل عام میں صیہونی حکومت کے مالی، ہتھیار اور سیاسی حمایتی ہیں، نے الگ الگ مقامات پر مغربی کنارے میں ہونے والے واقعات کی مذمت کی ہے۔
اس سلسلے میں امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے تل ابیب پر فلسطینیوں پر حملے کرنے والے آباد کاروں کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے دباؤ ڈالا،دوسری جانب یورپی یونین اور کینیڈا اور آسٹریلیا کے ساتھ ساتھ 12 یورپی ممالک نے ایک مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے مغربی کنارے میں فلسطینیوں پر صیہونی آباد کاروں کے وحشیانہ حملوں کی شدید مذمت کی ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ اس طرح کی پیش رفت سے خطے میں پائیدار امن کے امکانات کو خطرہ لاحق ہے۔
برطانوی حکومت کی ویب سائٹ پر بھی شائع ہونے والے اس بیان میں کہا گیا ہے کہ آسٹریلیا، بیلجیم، ڈنمارک، یورپی یونین، فن لینڈ، فرانس، آئرلینڈ، لکسمبرگ، ہالینڈ، ناروے، اسپین، سویڈن، سوئٹزرلینڈ، برطانیہ اور کینیڈا نے اسرائیلی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مغربی کنارے میں آباد کاروں کے غیر معمولی تشدد سے نمٹنے کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات کرے۔
ساتھ ہی Politico نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے اپنی حکومت کے اعلیٰ حکام سے کہا ہے کہ وہ مغربی کنارے کے فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے گھر کرنے والے انتہا پسند اسرائیلی آباد کاروں کے خلاف پابندیاں عائد کریں اور انہیں ویزے جاری نہ کریں،ان اقدامات میں خلاف ورزی کرنے والوں کو امریکہ میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔
حال ہی میں مغربی کنارے کے ایک فلسطینی گاؤں کے دورے کے دوران فرانسیسی وزیر خارجہ کیتھرین کولونا نے فلسطینیوں کے خلاف صیہونی آبادکاروں کے حملوں کی مذمت کی۔
یورپی سفارت کاری کے سربراہ جوزف برل نے بھی برسلز میں یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے بعد اعلان کیا کہ مغربی کنارے میں اسرائیلی انتہا پسندوں کے خلاف ممکنہ پابندیوں پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے،اس حوالے سے اتفاق رائے نہ ہونے کی نشاندہی کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ وہ رکن ممالک کو ایک تجویز پیش کریں گے۔
اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ امریکہ اور بعض مغربی ممالک کے رہنماؤں نے غزہ میں ہونے والے قتل عام میں صیہونی حکومت کی باضابطہ حمایت کی ہے اور اسے اسلحہ بھی دیا ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے آباد کاروں کے بارے میں اس طرح کا موقف کیوں اختیار کیا ہے؟ غزہ اور مغربی کنارے کے بارے میں ان کا یہ رویہ کہاں سے آتا ہے اور اس کے کیا مقاصد ہیں؟ اس سوال کے جواب میں چند اہم نکات ہیں:
1۔ 1993 کے اوسلو معاہدے اور مشرق وسطیٰ امن منصوبوں کی بنیاد پر مغربی ممالک نے ہمیشہ صیہونی حکومت کے ساتھ فلسطینیوں اور عرب ممالک کے سمجھوتہ کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی ہے،دوسرے لفظوں میں مغربی کنارہ فلسطینیوں، عرب اور اسلامی ممالک پر اثر انداز ہونے کے لیے سمجھوتے کا نمونہ ہے،اس مسئلے پر غور کرتے ہوئے اہل مغرب نے ہمیشہ ان علاقوں میں صیہونی آباد کاری کی مخالفت کی ہے اور اسے امن عمل کے منافی قرار دیا ہے،ان علاقوں میں فلسطینیوں پر آباد کاروں کے حملے سکیورٹی چیلنجوں کو بھڑکا دیں گے، جو عملی طور پر مفاہمتی عمل کے فاتحانہ چہرے کا خاتمہ ہے،اسی بنیاد پر فرانسیسی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ اس طرح کے خطرناک اقدامات سیاسی حل تک پہنچنے کے امکانات کو ختم کر دیتے ہیں اور فلسطینی اتھارٹی کو کمزور کر دیتے ہیں،دوسرے لفظوں میں سمجھوتے کے عمل میں ناکام رہنے والا مغرب صیہونی آباد کاروں کے حملوں کے نتائج کو سمجھوتے کے تابوت میں آخری کیل سمجھتا ہے،اس لیے وہ اس کا مقابلہ کرنے پر اصرار کرتا ہے۔
2۔ صیہونی حکومت کے حکمران ڈھانچے سے نکلنے والے آباد کاروں کی انتہا پسندی میں اضافہ ہوا ہے جبکہ غزہ کی جنگ کے ساتھ ساتھ اس حکومت کے رہنما بڑے پیمانے پر آباد کاروں کو مسلح کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں،انتہا پسند آباد کاروں کے لیے ہتھیاروں کی دستیابی مقبوضہ فلسطینی علاقوں ، فسلطینی اتھارٹی اور صیہونی حکومت کے زیر کنٹرول خطے میں سلامتی کے بحران کی ایک نئی لہر کو جنم دیتی ہے، جو درحقیقت اسرائیل کی تباہ شدہ سلامتی کی حالت کو مزید تیز کر دے گی۔
3۔ یورپی رہنماؤں نے بائیکاٹ یا بی ڈی ایس تحریک کو مختلف عنوانات سے خطاب کیا ہے،ایک ایسی تحریک جو اسرائیلی حکومت پر اقتصادی اور ثقافتی پابندیاں لگا کر فلسطینیوں کے حقوق کا دفاع کرتی ہے اور اس حکومت پر فلسطینی زمینوں پر قبضہ ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈالتی ہے،آبادکاروں کی انتہا پسندی صیہونی حکومت کے خلاف بائیکاٹ کی تحریک کو مزید فعال بنا دے گی اور اس حکومت کے اقتصادی بحرانوں میں اضافہ کرے گی۔
4۔ غزہ کی جنگ مزاحمت کی طاقت اور صیہونی حکومت کی انٹیلی جنس اور فوج کی خرابی کو ظاہر کرنے کے علاوہ، مغربی کنارے میں مزاحمت کی مضبوطی کی بنیاد بن گئی ہے،اس جنگ کے آغاز سے اب تک مغربی کنارے میں ہزاروں فلسطینیوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور سینکڑوں لوگ شہید ہو چکے ہیں،تاہم پولز مغربی کنارے میں مزاحمت کی مقبولیت میں اضافے کی نشاندہی بھی کرتے ہیں، قابل اعتماد فلسطینی پولنگ انسٹی ٹیوٹ PSR کی جانب سے کیے گئے ایک سروے میں، تقریباً 90% لو فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کا استعفیٰ چاہتے ہیں،نیز، رائے عامہ کے اس جائزے کے مطابق، مغربی کنارے کے 44% لوگ حماس کی حمایت کرتے ہیں جب کہ گزشتہ ستمبر میں اور طوفان الاقصیٰ سے پہلے اس خطے کے صرف 12% لوگوں نے حماس کی حمایت کی تھی۔ مغربی کنارے میں رہنے والے 82 فیصد فلسطینیوں نے حماس کے سرپرائز آپریشن کی حمایت کی ہے۔ یہ اجزاء مسلح مزاحمت کے لیے مغربی کنارے کی تیاری کو ظاہر کرتے ہیں اور سمجھوتہ سے منہ موڑنے اور فلسطینی اتھارٹی کو کمزور کرنے کو تقویت دیتے ہیں،آبادکاروں کی شدت پسندی خود مختار تنظیموں کو مزید کمزور کرنے اور مزاحمتی گروہوں کی مضبوطی کا باعث بنتی ہے، جس کا حتمی نتیجہ اس خطے میں مزاحمت کا اعادہ ہوگا۔ تاہم صیہونی حکومت کے پاس غزہ اور مغربی کنارے کے دو محاذوں پر جنگ چھیڑنے کی صلاحیت نہیں ہوگی اور مغربی کنارے میں جنگ صہیونی سکیورٹی زون کو عملی طور پر مختصر کردے گی۔
مزید پڑھیں: غزہ میں کسی بھی قسم کی کامیابی 7 اکتوبر کی شکست کے داغ کو نہیں مٹا سکتی
ان عوامل کے مطابق یہ کہا جا سکتا ہے کہ حالیہ ہفتوں میں آباد کاروں کی انتہا پسندی پر امریکہ اور یورپ کا رد عمل فلسطینی عوام کی حمایت نہیں ہے بلکہ سمجھوتہ کے عمل کے لیے مصنوعی تنفس ہے، جس کو برقرار رکھا جا رہا ہے تاکہ مغربی کنارے میں مزاحمت کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔