سچ خبریں: غزہ میں صیہونیوں کے جرائم بشمول ہزاروں بچوں کا قتل عام عرب صیہونی مصالحتی ڈھانچے کو منہدم کرنے کا باعث بنا، جسے صیہونیوں نے عرب حکمرانوں کو دھوکہ دے کر ایک ایک اینٹ رکھ کر کھڑا کیا تھا۔
15 ستمبر 2020 کو جب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں صیہونیوں اور عرب حکمرانوں کے درمیان ایک مشترکہ تقریب کی میزبانی کی جس میں متحدہ عرب امارات اور بحرین کے وزرائے خارجہ نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا جس کے بعد اسرائیلی کابینہ اگلے برسوں کے دوران عرب دنیا کے ساتھ تعلقات میں بہتری آنے کے لیے پرامید تھی،صیہونیوں کے ساتھ تعلقات کی معمول پر لانے والی ٹرین سوڈان اور مغرب تک پہنچ گئی، سوڈان نے امریکی پابندیوں کی فہرست سے نکلنے کے مقصد سے صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے آمادگی کا اظہار کیا اور مغرب نے صیہونی حکومت کو پولساریو علیحدگی پسند محاذ کے خلاف واشنگٹن کی حمایت اور صیہونی فوجی سازوسامان حاصل کرنے کے مقصد سے تسلیم کیا۔
یہ بھی پڑھیں: طوفان الاقصی کے بعد صیہونیوں کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے منصوبے کا کیا ہوگا؟
اگرچہ ٹرمپ انتظامیہ اپنے انجام کو پہنچ گئی،تاہم بائیڈن کی ڈیموکریٹک انتظامیہ اسرائیل اور عربوں کے درمیان امن قائم کرنے کی پالیسی کے لیے کوئی اجنبی نہیں تھی اور اسے صہیونیوں کے مستقبل کے لیے مفید سمجھتی تھی،طوفان الاقصیٰ اور صہیونی حملے کے آغاز سے صرف 5 دن قبل، بائیڈن کے قومی سلامتی کے مشیر، جیک سلیوان نے فارن افیئرز میگزین میں شائع ہونے والے ایک کالم میں مغربی ایشیائی خطے سمیت وائٹ ہاؤس کی پالیسیوں کے نتائج کے بارے میں لکھا کہ صیہونیوں کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی روش کو وسعت دینے کی کوشش کے نتیجہ میں اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان کشیدہ صورتحال اور غزہ کے بحران سمیت خطے کے چیلنجز میں کمی آئی ہے، سلیوان نے غزہ کی صورت حال کا خلاصہ یوں کیا کہ اگرچہ مشرق وسطیٰ مسلسل چیلنجوں سے دوچار ہے لیکن یہ خطہ کئی دہائیوں کے مقابلے میں اس وقت زیادہ پرسکون ہے۔
اگرچہ امریکی حکام اور سفارت کار خطے میں اسرائیل کے مستقبل کے بارے میں پر امید تھے لیکن مقبوضہ علاقوں میں گزشتہ ماہ کے دوران پیش آنے والی صورتحال امریکی روڈ میپ سے میل نہیں کھاتی،اے بی سی نیوز نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ وہ ممالک جو صیہونیوں کے ساتھ تعلقات معمول پر لاچکے ہیں یا اس سلسلہ میں بات چیت کر رہے ہیں، ان پر تعلقات منقطع کرنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے، مذکورہ رپورٹ فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کی خبروں پر مبنی ہے، جس نے حال ہی میں ایک باخبر ذریعے کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ سعودی رہنماؤں نے ریاض کے دورے کے دوران امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن سے کہا کہ وہ سعودی عرب کے صیہونیوں کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے مذاکرات بند کریں،ایک ایسا معاہدہ جس کے بارے میں صہیونی رہنما پر امید تھے اور ان کا خیال تھا کہ سعودی عرب جیسے ملک کے ساتھ تعلقات معمول پر آنے سے عرب دنیا کے ساتھ رابطے کا راستہ ہموار ہو جائے گا،وائٹ ہاؤس میں جو بائیڈن سے اپنی پہلی ملاقات میں نیتن یاہو نے براہ راست سعودی عرب کا ذکر کیا اور امید ظاہر کی کہ بائیڈن کے دور صدارت میں اسرائیل ریاض کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے میں کامیاب ہو جائے گا!
عرب حکمرانوں کا سیاسی رجحان صرف ریاض تک محدود نہیں ہے، غزہ کے خلاف صیہونیوں کے مسلسل وحشیانہ جرائم کے جواب میں بحرینی ایوان نمائندگان نے صیہونی حکومت کے ساتھ اقتصادی تعلقات منقطع کرکے تل ابیب سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا ہے، منامہ نے یہ بھی کہا کہ صیہونی حکومت کے سفیر کی مقبوضہ علاقوں میں واپسی ہوئی ہے،غزہ میں صیہونی جرائم کے جواب میں اردن نے تل ابیب سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا ہے،الجزائر نے سرکاری طور پر عندیہ دیا ہے کہ اگر صہیونیوں کے جرائم جاری رہے تو وہ باضابطہ طور پر جنگ میں داخل ہو جائے گا۔ الجزائر کی پارلیمنٹ کے نمائندوں نے اس ملک کے صدر کو ضرورت پڑنے پر صیہونی حکومت کے ساتھ جنگ کرنے کی باضابطہ اجازت دے دی ہے۔
اسلامی دارالحکومتوں کی سڑکوں پر صہیونیوں معمول پر لانے کے خلاف مزاحمت شروع ہو چکی ہے، مراکش کے دارالحکومت رباط سے لے کر اردن کے مرکز تک عرب اسلامی ممالک میں متعدد مظاہرے ہو چکے ہیں اور مظاہرین نے اس سلسلہ میں اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے،مثال کے طور پر اردن کے دارالحکومت عمان میں ہزاروں لوگوں نے "ہم سب حماس اور قسام ہیں” کے نعرے لگائے،مصر میں کئی سالوں کے بعد قاہرہ کی سڑکوں پر’’اسرائیل مردہ آباد‘‘ کی صدا گونجی۔
مزید پڑھیں: صیہونیوں کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا ہارے ہوئے گھوڑے پر شرط لگانا کیوں ہے؟
ایک رپورٹ میں چتھم ہس تھنک ٹینک نے تھوڑا پیچھے ہٹ کر مسلم دنیا میں صیہونی دنیا کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت اور سمجھوتے کی میز کے خاتمے کی وجہ کا تجزیہ کیا ہے،اس تھنک ٹینک نے تحقیق کی ہے کہ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق رواں سال کے آغاز سے ستمبر تک اسرائیلی فورسز نے مغربی کنارے میں ہر سال (جب سے اقوام متحدہ نے ہلاکتیں ریکارڈ کرنا شروع کی ہیں) کے مقابلے میں زیادہ فلسطینیوں کو ہلاک کیا، بلاشبہ عرب حکمرانوں نے ابھی تک غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کو روکنے کے لیے عملی طور پر کچھ نہیں کیا۔