سچ خبریں: ایک سینئر علاقائی ماہر نے اس بات پر زور دیا کہ مسئلہ فلسطین شہید سلیمانی کی نظر میں ایک اسٹریٹجک مسئلہ تھا اور انہوں نے خطے میں امریکی صیہونی تسلط کو شکست دینے کے لیے بہت قربانیاں دیں۔
خطے کے اسٹریٹجک مسائل کے محقق طلال عطریسی نے فلسطین کے کاز کو عوام کے ذہنوں میں زندہ رکھنے میں شہید جنرل قاسم سلیمانی کے کردار کے حوالے سے اس بات پر زور دیا کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی دو بنیادی شعبوں میں بے نظیر تھے ؛پہلا محور خطے کی صورتحال پر نظر، اس کا تجزیہ کرنے اور اس سلسلہ میں حکمت عملی تیار کرنا اور دوسرا محور میدان جہاد تھا،یہ بہت کم ہوتا ہے کہ یہ دونوں محور ایک کمانڈر میں موجود ہوں، عام طور پر اسٹریٹجک نظریات اور فیلڈ تجربات ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: فلسطین کے لیے جنرل سلیمانی کی گراں قدر خدمات؛ماسکو یونیورسٹی کے پروفیسر کی زبانی
شہید سلیمانی کی ایک اور خصوصیت یہ تھی کہ وہ ان دونوں محوروں کو ساتھ لے کر چلتے تھے،اس لحاظ سے کہ جب وہ مختلف محاذوں پر لڑ رہے تھے اور مختلف گروہوں اور عسکری دھاروں جیسے عراق میں امریکی افواج یا شام میں داعش دہشت گرد گروہ کے خلاف برسرپیکار تھے تو ان کا تزویراتی نقطہ نظر فلسطین کی طرف تھا اور ان کا خیال تھا کہ خطے میں میں پیش آنے والے تمام واقعات کے باجود فلسطین سے توجہ نہیں ہٹانی چاہیے کیونکہ یہ ایک اسٹریٹجک نقطہ نظر ہے،جب انہوں نے اپنی جدوجہد جاری رکھی تو اس نے مختلف محاذوں اور مزاحمتی محور کی طاقت کو فلسطین سے باہر نکالنے سے روکنے کی کوشش کی اس وجہ سے انہوں نے اضافی کوششیں کیں اور بڑے اور حساس خطرات مول لیے کیونکہ تمام بڑے پیمانے پر تنازعات کی موجودگی کے ساتھ۔ خطے میں مسئلہ فلسطین کو خصوصی اہمیت دی۔
عطریسی نے مزید کہا کہ مختلف مزاحمتی گروہوں کے فلسطینی کمانڈروں نے صیہونیوں کے خلاف محاذ آرائی اور لڑائی کے افکار اور حکمت عملیوں کو تقویت دینے کے میدان میں جنرل سلیمانی کے کردار کے بارے میں بات کی ہے، جیسے سرنگیں اور دیگر ذرائع جنہیں صیہونی حکومت کی جارحیت کے خلاف فلسطینی مجاہدین آج استعمال کر رہے ہیں اس کا واضح ثبوت ہے، اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ جنرل سلیمانی نے مسئلہ فلسطین کو ایک زندہ اور فعال مسئلہ بنایا اور انہوں نے ہمیشہ اپنی تمام تقاریر اور مختلف جگہوں میں مسئلہ فلسطین پر بات کی،جب وہ عراق میں امریکی حملہ آوروں کے خلاف برسرپیکار تھے تو وہ نہ صرف عراق کی آزادی کے لیے کوشاں تھے بلکہ وہ فلسطین کو خطے کا مرکزی مسئلہ بنانا چاہتے تھے،اس کا مطلب یہ ہے کہ شہید سلیمانی اس حوالے سے ایک اسٹریٹجک نقطہ نظر رکھتے تھے اور اس نقطہ نظر کے علاوہ انہوں نے کافی فیلڈ تجربہ بھی حاصل کیا تھا جس کی وجہ سے وہ فلسطین میں مزاحمتی تحریکوں کے ساتھ مناسب طریقے سے رابطہ قائم کر سکے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کا بھی یہی نظریہ ہے جو مسئلہ فلسطین کو امت اسلامیہ کا اہم مسئلہ سمجھتا ہے کیونکہ فلسطین کی حمایت کرنا ایران اور امت اسلامیہ کے دیگر ممالک کا فرض ہے اور شہید سلیمانی اس اسٹریٹجک وژن کو حاصل کرنے کے لیے ایک شاندار کمانڈر تھے،اس سوال کے جواب میں کہ شہید قاسم سلیمانی کو شہید القدس کیوں کہا جاتا ہے، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مختلف فلسطینی گروہ، خاص طور پر حماس اور جہاد اسلامی تحریک، مزاحمت کے بنیادی ڈھانچے کی تشکیل اور انہیں تیار کرنے میں جنرل سلیمانی کے کردار سے بخوبی واقف ہیں،وہ صہیونی دشمن کی کسی بھی جارحیت سے آگاہ ہیں، جیسا کہ ہم نے کہا کہ یہ مسئلہ فلسطین اور قدس کے حوالے سے ان کے طے شدہ نقطہ نظر سے اخذ کیا گیا ہے جسے وہ ایران اور ملت اسلامیہ کا قومی آئیڈیل سمجھتے ہیں۔
شہید سلیمانی نے مزاحمتی گروپوں کے ایران میں مزاحمتی کمان کے ساتھ براہ راست تعلق قائم کرنے کے ذریعے مختلف شکلوں میں ان گروہوں کی مدد کرنے کی ذمہ داری پر عمل کیا،انہوں نے اختلاف کے باوجود مزاحمتی تحریکوں اور حتی کہ علاقے کی حکومتوں کے نظریات کو یکجا کرنے کا مشن بھی انجام دیا اور اسی وجہ سے انہیں شہید القدس کا خطاب دیا گیا۔ غالباً اس لقب کو استعمال کرنے والے پہلے شخص حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ اسماعیل ہنیہ تھے جنہوں نے جنرل سلیمانی کی نماز جنازہ میں اپنی تقریر میں انہیں شہید القدس کہا جس نے ان کے طرز عمل میں ایک واضح حقیقت کو ظاہر کیا اور ثابت کیا کہ شہید سلیمانی ان سے جڑے ہوئے تھے۔
یہ مزاحمتی تحریکوں اور فلسطین نیز قدس کی آزادی کے منصوبے کے ساتھ اچھا رہا اس لیے کہ بیت المقدس کے قابض پچھلے سالوں سے اسے یہودی بنانے اور اس پر یہودی تسلط کی وسیع کوششیں کر رہے ہیں ،اس نقطہ نظر سے ہم اس بات پر زور دے سکتے ہیں کہ یہ لقب شہید سلیمانی سے پوری طرح مطابقت رکھتا ہے کیونکہ وہ قدس کو فلسطین کی آزادی کے بارے میں اپنے نظریات کا تزویراتی قبلہ سمجھتے تھے۔
خطے میں صیہونی حکومت کو کمزور کرنے اور اس کی بالادستی میں جنرل سلیمانی کے کردار کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں خطے کے اسٹریٹیجک مسائل کے اس تجزیہ کار نے تاکید کی کہ جنرل سلیمانی ان اہم ترین افراد میں سے ایک ہیں جنہوں نے صیہونی حکومت کو کمزور کرنے میں کردار ادا کیا ہ ،یہاں تک کہ خطے میں امریکی اثر و رسوخ کو بھی کمزور کیا ہے، اس لیے کہ جب طے میں امریکی اثر و رسوخ کمزور ہوگا تو قدرتی طور پر صیہونی حکومت کا اثر و رسوخ بھی کمزور ہو جائے گا۔
عطریسی نے مزید کہا کہ جب جنرل سلیمانی عراقی عوام کے شانہ بشانہ امریکی قبضے کے خلاف لڑے اور امریکہ کی شکست کا سبب بنے تو اس شکست کا مطلب صیہونی حکومت کے اثر و رسوخ کو کمزور کرنا تھا،صیہونی دشمن کے براہ راست کمزور ہونے کے حوالے سے کہا جائے کہ شہید سلیمانی 2006 میں لبنان میں اس حکومت کے خلاف جنگوں میں ہمہ وقت پیش پیش رہے جو صیہونی حکومت کی شکست کا باعث بنیں ، انہوں نے فلسطینی جنگوں میں امداد فراہم کرتے ہوئے نیز فلسطین میں مزاحمتی گروپوں کی مدد کے لیے سہولیات فراہم کیں جس کے نتیجے میں وہ گزشتہ برسوں کے دوران مستحکم ہوئے اور وہ مزاحمت کو تباہ کرنے کے صہیونی منصوبوں کو شکست دینے میں کامیاب رہے جو طوفان الاقصیٰ آپریشن میں دکھائی دیا جس نے فلسطین میں مزاحمتی تحریک خاص طور پر حماس اور جہاد اسلامی تحریک، ان کی تیاری، تربیت، سازوسامان اور ہتھیاروں کی مقدار، سرنگوں کی اہمیت اور اس طرح انہوں نے ایک اہم کردار ادا کیا۔
شہید سلیمانی کی شناخت صیہونی حکومت کا مقابلہ کرنے میں کی گئی اور اسی کے مطابق اس حکومت کی ہر سطح پر کمزوری کی نشاندہی اندر اور باہر، امریکیوں اور یورپیوں کے لیے رائے عامہ کے لیے کی گئی۔
اس سینئر علاقائی ماہر کے مطابق یہی کمزوری تھی جس نے امریکہ اور مغرب کو اپنی براہ راست موجودگی کے ساتھ صیہونی حکومت کی حمایت کرنے پر مجبور کیا اور اس نکتے نے ظاہر کیا کہ صیہونی حکومت اس قدر کمزور ہے کہ وہ طوفان الاقصیٰ کے بعد پیش آنے وای صورتحال کو برداشت نہیں کر سکتی،یہ تمام کامیابیاں شہید سلیمانی کی کاوشوں کا نتیجہ تھیں،بلاشبہ ہم یہاں دوسرے فلسطینی، لبنانی اور عراقی گروہوں کی کوششوں اور شخصیات کے بارے میں بات نہیں کر رہے ہیں بلکہ ہم شہید سلیمانی کے کردار کی بات کر رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: شہید سلیمانی نے فلسطین کے لیے کیا کیا؟عراقی تجزیہ کار کی زبانی
طلال عطریسی نے مزید کہا کہ طوفان الاقصیٰ صہیونی دشمن کے ساتھ لڑائی کے ایک نئے دور کا آغاز تھا کیونکہ مستقبل کی جنگ طوفان الاقصی کی کامیابیوں اور اس حکومت کی کمزوری پر مبنی ہوگی، اس جنگ سے صیہونی حکومت کے خلاف مغرب کا عدم اعتماد پیدا ہوا یہی وجہ ہے کہ بہت سے آباد کار مقبوضہ فلسطین چھوڑتے ہوئے دیکھائی دے رہے ہیں جو صیہونی حکومت کی کمزوری کی واضح نشانیاں ہیں، یہ کمزوری فلسطین اور لبنان میں مزاحمتی تحریکوں کے استحکام اور خطے میں امریکہ کے انخلاء کے نتیجے میں سامنے آئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب ہم اس مسئلے پر بات کرتے ہیں تو ہمیں فوراً شہید سلیمانی ، ان کے سٹریٹجک وژن ، فیلڈ تجربات اور خطے میں مزاحمتی تحریکوں کی حمایت نیز ترقی کے لیے ان کی عظیم قربانیوں کے بارے میں سوچنا چاہیے۔