سچ خبریں: افریقہ میں نوآبادیاتی مخالف تحریکیں 19ویں صدی کے آخر اور 20ویں صدی کے ایک بڑے حصے میں براعظم میں یورپی سامراج کا ردعمل تھیں۔
افریقہ میں نوآبادیاتی دور کے دوران، افریقیوں اور ان کے رہنماؤں نے یورپی استعمار کے خلاف مختلف ردعمل کا اظہار کیا،کچھ لیڈروں نے نوآبادیاتی حکومتوں کے اپنے علاقوں پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے سے پہلے ہی مزاحمت کرنے کا انتخاب کیا، جیسے کینیا میں نندی اور مالی میں مینڈنکا جبکہ ان میں سے کچھ نے استعمار کے ساتھ تعاون کیا ،مجموعی طور پر نوآبادیاتی حکمرانی کے خلاف افریقی مزاحمت چار تاریخی ادوار میں ریکارڈ کی گئی ہے:
1۔ نوآبادیاتی فتح پر افریقیوں کا پہلا ردعمل ،تاریخ کا یہ دور 1880ء سے 1910ء تک کا ہے۔
2۔ 1914 سے 1939 تک کے دوسرے مرحلے میں نوآبادیاتی حکمرانی کے استحکام کا دور ۔
3۔ تیسرا دور دوسری جنگ عظیم (1945-1939) کے اختتام سے لے کر 1950 اور 1980 کی دہائی کے اوائل میں آزادی تک ۔
4۔ پرانے نوآبادیاتی دور کے بعد کا مرحلہ جسے نئے نوآبادیاتی دور کے لیے افریقی ردعمل کے طور پر وسیع پیمانے پر درجہ بندی کیا جا سکتا ہے، اس طرح افریقی جنگجوؤں نے سابق نوآبادیات کے ساتھ اپنے تعلقات کو ٹھیک کرنے اور اس براعظم سے منسلک منفی شکلوں سے نمٹنے کی کوشش کی۔
یہ بھی پڑھیں: افریقہ پر اتنا دباو کیوں؟
اہم نکتہ یہ ہے کہ افریقہ میں نوآبادیاتی مخالف رجحان ہمیشہ ایک ملک میں دوسرے ملک سے اور ایک وقت سے دوسرے وقت میں مختلف رہا ہے،اس براعظم کے ساحلی ممالک جن کا عام طور پر 15ویں صدی سے یورپیوں کے ساتھ طویل رابطہ تھا (مثلاً گھانا) اور انہوں نے بعض صورتوں میں ثقافت اور سماجی تبدیلی کا تجربہ کیا تھا، ابتدائی طور پر نوآبادیاتی حکمرانی کے مطابق ڈھلنے کی طرف مائل تھے لیکن جب انہوں نے محسوس کیا کہ نوآبادیاتی نظام کی حکمرانی اتنی فائدہ مند نہیں ہے جتنی وہ سوچتے تھے تو یہ تعاون ڈرامائی طور پر بدل گیا اور تصادم کا باعث بن گیا۔
تاریخ گواہ ہے کہ افریقہ کے اسلامی ممالک اور بنیادی طور پر اس براعظم کی شمالی ریاستوں نے دیگر خطوں کی نسبت استعماری حکومت کے خلاف زیادہ مزاحمت کی اس لیے کہ اسلامی ممالک میں مسلم نظریے کے زیر اثر نوآبادیاتی یورپیوں کو اسلام دشمن کافروں کے طور پر جانا جاتا تھا لہٰذا، غیر اسلامی افریقہ کے مقابلے میں اسلامی ممالک میں استعمار مخالف کوششیں زیادہ مضبوط اور طویل تھیں۔
ایک اور نکتہ یہ ہے کہ عام طور پر آبادکار کالونیوں میں نوآبادیاتی مخالف کوششیں غیر آباد علاقوں کی نسبت زیادہ وسیع اور طویل دکھائی دیتی تھیں کیونکہ یورپی آباد کاروں نے افریقیوں کو دوبارہ آزادی حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی مثال کے طور پر، الجزائر میں، فرانسیسی تارکین وطن کے تشدد اور جبر کی وجہ سے تقریباً 10 لاکھ افریقی ہلاک ہوئے۔
یورپی استعمار کے خلاف مسلح مزاحمت
نوآبادیاتی حکومتوں کے خلاف 1880 سے 1910 تک افریقی مزاحمت کے پہلے مرحلے میں نوآبادیاتی مخالف رہنما بڑے پیمانے پر مختلف نوآبادیاتی اقدامات کا مقابلہ کرنے میں پیش پیش رہے،جن میں فوجی مزاحمت ایک نمایاں خصوصیت تھی، بہت سی افریقی حکومتوں اور معاشروں نے مسلح مزاحمت کا سہارا لیا جس کی قیادت ان کے رہنماؤں نے کی؛مثال کے طور پر مغربی افریقہ میں کائر (موجودہ سینیگال میں) کے حکمران، لاٹ ڈیور نے 1864 سے 1886 تک فرانسیسیوں کے خلاف مزاحمت کی،آئیوری کوسٹ کے علاقے کے مقامی رہنما 1891 سے 1902 تک فرانسیسیوں کے خلاف مزاحمتی نقشے تیار کر رہے تھے،گھانا کے اسانتے 19ویں صدی کے دوران اور پھر 1900-1901 میں انگریزوں کے خلاف کئی جنگوں میں ملوث تھے،موجودہ بنین علاقے کے قبائل کا فرانسیسیوں کے ساتھ 1891 سے 1902 تک فوجی تصادم رہا،اس کے علاوہ یوروبا اجبو ریاست نے 1892 میں برطانوی استعمار اور شمالی نائیجیریا میں سوکوٹو سلطنت سے 1899 سے 1903 تک جنگ کی،مغربی افریقہ میں استعمار کے خلاف مشہور فوجی مزاحمت کا سہرا سامورائی ٹورے (c.1830-1900) کے سر پر جاتا ہے جو مدنکا سلطنت میں ایک مسلم رہنما تھے جنہوں نے فرانسیسیوں کے ساتھ 1882 سے 1898 تک ایک طویل مسلح مزاحمت کی،ادھرمشرقی افریقہ بھی نوآبادیاتی حکمرانی کے خلاف مسلح مزاحمت کا منظر رہا ہے،تنزانیہ کے ساحل مسلم رہنما ابو شیری کی قیادت میں اگست 1888 سے دسمبر 1899 تک جرمنوں کے ساتھ جھڑپیں کرتے رہے،اس طرح مسلح مزاحمت کو شمالی اور شمال مشرقی افریقہ تک بڑھایا گیا۔
مصریوں نے 1882 میں انگریزوں کے خلاف بغاوت کی اور سوڈانی 1881 سے 1889 تک انگریزوں کے خلاف لڑتے رہے، 1884 اور 1887 کے درمیان صومالیوں نے متعدد برطانوی، اطالوی اور فرانسیسی افواج کا مقابلہ کیا،براعظم کے شمالی قوس میں لیبیا، تیونس اور مراکش کے باشندے بھی فرانسیسی، اطالوی اور ہسپانوی استعمار کے خلاف برسرپیکار رہے۔
مجموعی طور پر افریقی حکومتوں اور معاشروں کی ایک بڑی تعداد نے اپنی آزادی کو برقرار رکھنے کی کوشش میں فوجی مزاحمت کا سہارا لیا لیکن ہر دور میں مختلف یورپی استعماری ممالک کی قیادت میں فوج نے مزاحمت کی تحریکوں کو سختی سے دبایا، تاہم صرف ایتھوپیا اپنی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے ایک یورپی طاقت، اٹلی کو فیصلہ کن شکست دینے میں کامیاب رہا،تاہم، 1935 سے 1936 تک، اطالوی فاشسٹ رہنما بینیٹو مسولینی (1945-1883) نے 1896 میں اٹلی کی ذلت آمیز شکست کا بدلہ لینے کے لیے ایتھوپیا پر قبضہ کر لیا،اٹلی کے قبضے نے افریقی قوم پرستی کو تحریک دی کیونکہ بہت سے افریقیوں کا خیال تھا کہ ایتھوپیا افریقی مزاحمت اور آزادی کی علامت ہے نیز بعض مورخین نے یہاں تک کہا ہے کہ اگر یہ دوسری جنگ عظیم شروع نہ ہوتی تو ایتھوپیا پر اٹلی کا قبضہ ایک وسیع اتحاد پیدا کر دیتا۔
یاد رہے کہ افریقہ میں استعمار کے خلاف20 ویں صدی کی پہلی دو دہائیوں میں جبری مشقت، فصلوں کی جبری کاشت، زمینوں سے بے دخلی اور ٹیکسوں کے خلاف نوآبادیاتی مزاحمت کی شکلیں بھی دیکھنے کو ملیں مثال کے طور پر، تنگانیکا (اب تنزانیہ کا حصہ) میں، جرمن نوآبادیات کے ہاتھوں کپاس کی کاشت، جبری مشقت، اور ٹیکس لگانے کے انتہائی سخت اقدامات کی وجہ سے 1905 میں ماجی ماجی بغاوت ہوئی، جسے جرمنوں نے سختی سے دبا دیا اور 75000 افریقی مارے گئے۔
نوآبادیاتی مخالف عدم تشدد کی حکمت عملی
نوآبادیاتی دور میں افریقیوں نے استعمار کے خلاف عدم تشدد کی شکلوں کا بھی تجربہ کیا، اس کی وجہ یہ تھی کہ بعض افریقی رہنماؤں نے یورپی نوآبادیاتی فوج کی اعلیٰ عسکری ٹیکنالوجی کو سمجھتے ہوئے اور جنگجوؤں کی سابقہ ناکامیوں کو دیکھتے ہوئے نئی حکمت عملی اپنائی، جن میں سے ایک بڑے پیمانے پر ہجرت تھی،افریقی رہنماؤں کی ایک اور نسل کی اس حکمت عملی میں کمیونٹیز، گروہوں اور افراد کی فرنٹ لائنوں اور نوآبادیاتی پالیسی کا سامنا کرنے والے علاقوں سے ان حصوں کی طرف ہجرت شامل تھی جو براعظم سیاہ میں نوآبادیات کے ساتھ کم ملوث تھے،اس طرح بڑے پیمانے پر ہجرتیں بنیادی طور پر موسمی تھیں یا مثال کے طور پر خشک موسم کے دوران جبری مشقت مثال کے طور پر 1916 اور 1917 میں دو ہزار سے زائد افراد نے فرانسیسی آئیوری کوسٹ سے پڑوسی ملک گھانا کی طرف ہجرت کی۔
نتیجہ؛ ڈی کالونائزیشن سے ڈیریشلائزیشن تک
افریقی آزادی اور افریقی طرز زندگی کے تحفظ کے لیے مسلح مزاحمت کے ساتھ پرانے افریقی رہنماؤں کے انداز میں نوآبادیات مخالف تشکیل دی گئی تھی، 1900 کی دہائی کے اوائل میں جب مختلف افریقی ممالک میں استعماری جبر نے جب شدت اختیار کی تو ناکام ہوا چنانچہ افریقہ میں نوآبادیاتی مخالف رہنماؤں کی ایک اور نسل نے اپنی اور اپنے ملکوں کی نوآبادیاتی مخالف کوششوں کو دوسرے طریقوں سے جاری رکھا،اس طرح 1900 کی دہائی نے مقامی پریس کو نوآبادیاتی مخالف رہنماؤں اور تحریکوں کے لیے ایک قیمتی ہتھیار بنتے دیکھا،بعد میں اس عمل کو پین افریکنسٹ تحریک کے ذریعے لائی گئی سیاسی تبدیلیوں سے تقویت ملی اور افریقی دانشوروں کی ایک نئی نسل نے نوآبادیاتی مخالف کوششوں کی اصلاح کی۔
20ویں صدی کی دوسری دہائی سے نوآبادیاتی طاقتوں نے افریقیوں کو متاثر کرنے والی انتظامی پالیسیوں کو سختی سے نافذ کیا،معاشی استحصال نے افریقی دانشوروں اور مقامی قبائلی رہنماؤں اور سرداروں کے ساتھ ساتھ دیہی اور شہری افریقیوں کے درمیان اتحاد پیدا کیا،جنگ کے برسوں کے دوران، پین افریقی سرگرمی اور قابل عمل سیاسی جماعتوں کی تشکیل نے ایک نئے انداز میں استعمار کے جوہر پر سوالیہ نشان لگا دیا۔
مزید پڑھیں: امریکہ اور یورپ افریقہ میں استعمار کی واپسی کے خواہاں ہیں: روس
مزید برآں دوسری جنگ عظیم سے پہلے آبادی میں تیزی سے اضافہ، شہری کاری اور تعلیمی فوائد نے پورے براعظم میں قوم پرست جماعتوں نے عوامی حمایت حاصل کی، آخر کار دوسری جنگ عظیم کے اثرات نے افریقیوں کو بالآخر ڈی کالونائزیشن کے راستے پر ڈال کر نوآبادیاتی مخالف قوتوں اور افریقی قوم پرستی کو ان کے ذہنوں میں بیدار کیا لیکن بہت سی سابقہ افریقی کالونیوں کے لیے، مکمل ڈی کالونائزیشن کے معنی میں سیاسی آزادی ابھی تک نہیں ہوئی ہے جیسا کہ سیاسیات کے مفکر پارتھا چٹرجی کہتے ہیں کہ بہت سے نئے افریقی رہنماؤں اور براعظم میں نوآبادیاتی ریاست کی شکلوں نے مکمل شعوری طور پر مغرب میں جدید ریاست کی شکلوں کو دہرایا البتہ اس مٰن برکینا فاسو میں "تھامس سنکارا” جیسے مستثنیات بھی تھے، جنہوں نے عام لوگوں کو بااختیار بنانے پر مرکوز ایک انقلابی اور تجرباتی عمل کے طور پر ڈی کالونائزیشن کی پیروی کی۔تاہم، "محمود ممدانی” جیسے اسکالرز نے استدلال کیا ہے کہ آزادی کے بعد اور نوآبادیاتی نظام کے بعد نوآبادیاتی مخالف رہنماؤں کی نئی نسل نے ڈی کالونائزیشن کی بجائے افریقنائزیشن اور نیشنلائزیشن کے ذریعے سفید فام بالادستی کو ختم کرنے پر توجہ دی،ان کے بقول اس نئے دور میں پورے افریقہ میں، decolonization کے ساتھ deracialization بھی تھا۔
افریقہ کے ماہر پیٹرک گتھارا نے بھی اس حوالے سے میڈیا کو بتایا: اس مرحلے پر بہت سے نئے افریقی رہنماؤں اور مقامی اشرافیہ نے پہلے سفید فام لوگوں کے لیے مختص مراعات، وسائل اور مواقع کی ضمانت دی جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ آزادی کے بعد بھی کبھی بھی گہری ڈی کالونائزیشن کی طرف نہیں گئے،تاہم، ڈی کالونائزیشن کے بغیر ڈی ریشلائزیشن نے بدلے میں نام نہاد آزاد قومی ریاستوں کو غیر ملکی مفادات کے اثر و رسوخ اور دباؤ کا شکار بنا دیا، کیونکہ نوآبادیاتی دور کے نظام اور طریقوں کے خلاف ان کی نال کبھی نہیں کٹی تھی۔
درحقیقت افریقہ میں بہت سے لیڈروں نے ان نوآبادیاتی ڈھانچے کو برقرار رکھا ہے یا ان کی اصلاح کی ہے جن پر انہوں نے ایک بار تنقید کی تھی اور اس کا مطالبہ کیا ،مثال کے طور پر، جیسا کہ کینیا میں سابق اٹارنی جنرل گیٹو موئیگائی نے 1992 کے ایک آرٹیکل میں کہا کہ ایک آمرانہ نوآبادیاتی انتظامی ڈھانچے پر لبرل آئین مسلط کرنے کی کوششیں آزادی کے وقت ناکام ہو گئی تھیں، اور افریقہ کو اس سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔