سچ خبریں: صیہونی تجزیہ کار اس حکومت کو درپیش خطرناک مستقبل اور عارضی جنگ بندی تک غزہ میں اسرائیل کی شکست کے حوالے سے نسبتاً اتفاق رائے پر پہنچ گئے ہیں۔
الجزیرہ نیوز سائٹ کے مطابق زیادہ تر اسرائیلی ماہرین اور تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ غزہ کی پٹی میں عارضی جنگ بندی حماس کی فتح اور اسرائیل کی اس جنگ کے دوران اپنے اعلان کردہ اہداف کے حصول میں ناکامی ہے،تاہم ان کا اصرار ہے کہ اس معاہدے پر عمل درآمد کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کیونکہ بنیامین نیتن یاہو کی کابینہ اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرنے میں ناکام ہو چکی تھی۔
یدیوت احرونٹ: ہمارے پاس فتح کا دعوی کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
صہیونی اخبار یدیوت احرونٹ کے سیاسی تجزیہ نگار ناحوم بارنیاع نے "ہم ان [قیدیوں] کا خاموشی سے خیرمقدم کرتے ہیں” کے عنوان سے ایک تجزیے میں لکھا ہے کہ اسرائیلی فوج بغیر کسی پابندی کے غزہ کی جنگ میں داخل ہوئی لیکن جب جنگ بندی کا اعلان کیا گیا تو کئی سوالات اٹھے کہ فوج کہاں جارہی ہے؟ فوج کیا کر رہی ہے؟
یہ بھی پڑھیں: عارضی جنگ بندی سے جیت کس کی ہوئی؟ حماس کی یا صیہونی حکومت کی؟
بارنیا کا خیال ہے کہ اسرائیلی جنگی کابینہ کے ارکان کے درمیان اتحاد اور اتفاق کے دعوے کے باوجود قیدیوں کے تبادلے کی منظوری کے حوالے سے مشکل اور خفیہ تنازعات پیدا ہوئے ہیں،فوجی آپریشن اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا اور اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا، اس لیے قیدیوں کے تبادلے اور عارضی جنگ بندی کے معاہدے کے دائرہ کار میں گرفتار کیے گئے لوگوں کی واپسی کی جانی چاہیے۔
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پہلے مرحلے میں قیدیوں کا تبادلہ فتح کا ڈھول پیٹنے کی وجہ نہیں ہے، نیتن یاہو یہ دکھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ اسرائیل نے مذاکرات میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے لیکن یہ جھوٹا دعویٰ ہے، نیتن یاہو حقائق کو نظر انداز کرنے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ محض جنگ بندی کا جائزہ لینے سے ان کی کابینہ ٹوٹ پھوٹ اور تقسیم کا شکار ہو جائے گی۔
ہارٹیز نے حماس کے لیے جنگ بندی کے فوائد درج کیے ہیں
عرب اور مشرق وسطیٰ کے مسائل کے ایک اور صیہونی تجزیہ کار تسفی بارئیل نے ہارٹیز اخبار میں لکھا ہے کہ قیدیوں کے تبادلے کی کاروائی نے حماس کے رہنماؤں کو یقین دلایا ہے کہ وہ قتل نہیں ہوں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ معاہدہ اسرائیل کے لیے بہت سے مسائل پیدا کرتا ہے، جن میں غزہ کے نقل و حمل کے راستوں پر فلسطینی شہریوں کی نقل و حرکت کی آزادی کے مسائل بھی شامل ہیں، چاہے وہ اس علاقے کے شمال میں چلے جائیں، جس سے حماس کے ساتھ۔ منسلک لوگوں کی آزادانہ نقل و حرکت کے بارے میں خدشات پیدا ہوتے ہیں۔
ہاریٹز کا مزید کہنا ہے کہ یہ معاہدہ حماس کو اپنی افواج کو دوبارہ منظم کرنے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے، اس کے علاوہ یہ بھی ہے کہ ہلاک ہونے والے اسرائیلی قیدیوں کی واپسی اب تک کابینہ کے ایجنڈے میں شامل نہیں ہے۔
سینئر اسرائیلی تجزیہ کار: مشکل اور تکلیف دہ دن اسرائیل کے انتظار میں ہیں
صیہونی حکومت کے فیصلہ ساز حلقوں کے قریب رہنے والے ایک سینئر اسرائیلی تجزیہ کار آموس ہیریئل نے صہیونی اخبار ہارٹیز میں شائع ہونے والے ایک کالم میں لکھا ہے کہ بعض قیدیوں کی رہائی اسرائیلی معاشرے میں خوشی کا باعث نہیں بن سکتی، اسرائیل انتظار کر رہا ہے میدان میں مشکل اور تکلیف دہ دن اسرائیل کے انتظار میں ہیں ، اسے مزید قیدیوں کی رہائی کے لیے مذاکرات کا تسلسل اور جنگی عمل اور پیشرفت کے لیے سلسلہ میں بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا،اس حقیقت کے علاوہ کہ یہ پیش رفت غزہ پٹی کے جنوبی علاقوں میں زمینی کاروائیوں کے عمل کو بھی متاثر کر سکتی ہے،انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل غزہ کی پٹی میں حماس کی خود مختاری اور اس کی فوجی طاقت کو تباہ کرنے نیز تمام اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرنے پر مبنی اس جنگ کے اعلان کردہ اہداف سے متعلق مسائل کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔
ہیریل نے واضح کیا کہ حماس اور دیگر فلسطینی گروپوں کے پاس اب بھی اسرائیلی فوجی اور سویلین قیدیوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اور ساتھ ہی وہ جنگ کے لیے اپنے حربے جاری رکھے ہوئے ہیں، جو اسرائیل کی رائے عامہ کے خلاف ایک نفسیاتی جنگ ہے۔
اسرائیل ہیوم: یہ ممکن ہے کہ اسرائیل کو سب سے بڑے ڈراؤنے خواب دیکھنا پڑیں
اسرائیل ہیوم اخبار میں صیہونی حکومت کے عسکری تجزیہ کار یواف لیمور کا خیال ہے کہ حماس جنگ بندی میں توسیع کر کے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے مزید وقت حاصل کرنا چاہتی ہے،انہوں نے کہا کہ جنگ بندی معاہدہ اسرائیلیوں کی امیدوں اور خوابوں اور حقیقی صورتحال کے درمیان ایک درمیانی حل ہے۔
کسی نہ کسی طرح اسرائیل کے لیے موجودہ حالات کو درست ثابت کرنے کی کوشش کرنے والے لیمور نے دعویٰ کیا کہ بدقسمتی سے موجودہ حالات میں قیدیوں کی واپسی کے لیے اس سے بہتر معاہدہ کرنا ممکن نہیں تھا، جیسے جیسے مذاکرات آگے بڑھتے گئے حماس اپنے مطالبات میں اضافہ کرتی چلی گئی اور اسرائیل کے لیے مشکلات کھڑی کرتی گئی۔
مزید پڑھیں: جنگ بندی کا معاہدہ نیتن یاہو کو کیسا لگا؟
وہ جو بظاہر اس کالم کے ذریعے اسرائیلی رائے عامہ کو مزید تکلیف دہ صورت حال کے لیے تیار کرنا چاہتے ہیں، مزید کہتے ہیں کہ ہم مستقبل کے ممکنہ معاہدوں اور شاید ایک مکمل جامع معاہدے کے بارے میں بات کر رہے ہیں اور اسرائیلی رائے عامہ کو سمجھنا چاہیے کہ ہم ایک تکلیف دہ صورتحال سے دوچار ہیں جس میں حسن سلامہ ، مہند سویم ، عباس السید ، ابراہیم حمید اور عبداللہ البرغوتی جیسے سب سے قدیم فلسطینی قیدیوں کی رہائی شامل ہو سکتی ہے جو اسرائیلی فیصلہ سازوں کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ہے۔
انہوں نے اپنی بات جاری رکھی کہ جنگ بندی کی مدت میں توسیع اگرچہ اسرائیل کو مزید قیدیوں کی رہائی کا موقع فراہم کر سکتی ہے لیکن اس سے حماس کو طویل عرصے کے لیے جنگ بندی کا امکان ملے گا جو اسرائیل کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔