سچ خبریں:صہیونی حکومت نے بالآخر جنگ بندی معاہدے کو قبول کر لیا، لیکن اپنے اہم اہداف، جیسے حماس کا خاتمہ اور مقبوضہ سرزمینوں کے شمالی علاقوں میں بے گھر فلسطینیوں کی واپسی، حاصل کرنے میں ناکام رہی، اس ناکامی نے حکومت کی شدت پسند کابینہ کے ارکان میں شدید ردعمل پیدا کیا ہے۔
468 دنوں پر محیط طوفان الاقصیٰ کی جنگ، جس میں غزہ کے 46 ہزار سے زائد باشندے شہید، 20 لاکھ سے زیادہ بے گھر، اور حیاتی، طبی، تعلیمی و دینی بنیادی ڈھانچے تباہ ہو چکے ہیں، آخر کار ایک فائر بندی معاہدے پر ختم ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں: شہریوں کا قتل عام صیہونیوں کی بے بسی کی نشانی : حماس
یہ معاہدہ، جو اسرائیل اور حماس کے درمیان ہوا، عالمی و علاقائی ذرائع ابلاغ میں نمایاں ہوا، اس معاہدے کی تفصیلات سامنے آتے ہی مسلم دنیا اور فلسطین کے حامیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، جبکہ مقبوضہ علاقوں میں رہنے والے خاص طور پر شدت پسند عناصر مایوسی اور غصے کا شکار ہو گئے۔
شدت پسند گروہوں کی ناراضگی اس حد تک ہے کہ اسرائیلی اخبار اسرائیل ہیوم نے لکھا کہ امریکہ کے نمائندے، اسٹیون وٹکاف، اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل پر ایک بدترین معاہدہ مسلط کر دیا۔
دوسری جانب یروشل پوسٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے شدت پسند وزیر، سموتریچ، سے وعدہ کیا ہے کہ قیدیوں کے تبادلے کے بعد غزہ میں جنگی کارروائیاں دوبارہ شروع کی جائیں گی۔
فائر بندی معاہدے کی تفصیلات اور اسرائیلی دھمکیوں کے باوجود، جیسے حماس کا خاتمہ، غزہ کے جغرافیائی حالات میں تبدیلی، اور بے گھر فلسطینیوں کی شمالی علاقوں میں واپسی، سب ناکام ہو چکے ہیں۔ اس صورتحال نے حزب اللہ کے شہید رہنما سید حسن نصر اللہ کے وعدے کو سچ ثابت کر دیا کہ صہیونی اپنے منصوبے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔
اس کالم میں ہم صہیونی حکومت کی اس بڑی شکست کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیں گے، جو فائر بندی معاہدے کے اعلان کے بعد مزید نمایاں ہوئی ہے۔
ایک خواب کی الٹی تعبیر
پچھلے پندرہ ماہ کے دوران، صہیونی حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں اور فوجی حکام نے بارہا اعلان کیا کہ غزہ میں جنگ اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک غزہ میں حماس کے تمام بنیادی ڈھانچے، تنظیمی ڈھانچے اور اراکین کو مکمل طور پر تباہ نہ کر دیا جائے۔
تاہم، حالیہ دنوں امریکی وزیر خارجہ، انتھونی بلنکن، کی اٹلانٹک کونسل میں کی گئی گفتگو اور ان کا یہ اعتراف کہ حماس کے عزالدین القسام بریگیڈز دوبارہ تشکیل پا رہے ہیں، صہیونیوں کی غزہ میں ناکامی کا ایک اور ثبوت فراہم کرتا ہے۔
بائیڈن حکومت کے وزیر خارجہ نے دعویٰ کیا کہ واشنگٹن نے کئی مرتبہ اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ حماس کو شکست دینے کا راستہ محض فوجی حملے سے ممکن نہیں ہے۔
بلکہ اسرائیل کو غزہ میں حماس کے متبادل کے طور پر کوئی ایسی تنظیم تلاش کرنی ہوگی جو وہاں کی عوام کے لیے قابل قبول ہو، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ غزہ میں فلسطینی اتھارٹی کی واپسی کا خواہاں ہے اور چاہتا ہے کہ وہ منتخب ارکان کے ساتھ مل کر اس علاقے میں شہری امور کا انتظام سنبھالیں۔
مزید برآں، واشنگٹن غزہ میں فلسطینی اتھارٹی کے انٹیلیجنس چیف ماجد فرج کی موجودگی اور ان کی صہیونی حکومت اور بین الاقوامی قوتوں کے ساتھ تعاون کو ترجیح دیتا ہے تاکہ غزہ میں مزاحمت کے احیا کو روکا جا سکے۔
حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی بین الاقوامی یا علاقائی طاقت غزہ کے عوام میں مزاحمتی گروہوں کی بلند حیثیت کو جھٹلا نہیں سکتی، غزہ کے رہائشی 2004 سے 2007 کے دوران کے واقعات کو نہیں بھولے ہیں، اور غالب امکان یہی ہے کہ وہ فلسطینی اتھارٹی کو حماس کے ساتھ تعاون کے بغیر دوبارہ اس علاقے میں قدم جمانے کی اجازت نہیں دیں گے۔
نیتن یاہو کابینہ کے اندر بڑھتی ہوئی مخالفت اور صہیونی حکومت کی بے بسی
نیتن یاہو کابینہ میں شاید ہی کوئی فرد ایسا ہو جو اسموتریچ کی طرح غزہ میں فائر بندی معاہدے کی مخالفت کرے۔ اس کی بنیاد مغربی کنارے کی صہیونی آبادکاریوں میں موجود شدت پسند ووٹ بینک پر ہے۔
اسموٹریچ نے اس معاہدے کو اسرائیل کی تاریخ کا بدترین سیکورٹی اور عسکری فیصلہ قرار دیا ہے۔ یہ سخت بیانات ایسے وقت میں سامنے آئے جب اسموتریچ، نتانیاہو کے دباؤ کے تحت کئی بار عملی سیاست اپنانے پر مجبور ہوا، جس کی وجہ سے اس کی حمایت میں نمایاں کمی ہوئی۔
حالیہ جائزوں کے مطابق، مقبوضہ فلسطین میں اسموتریچ کی جماعت ریلیجیس صہیونزم 3.25 فیصد ووٹ کی حد عبور کرنے میں ناکام رہی ہے اور کنسٹ (اسرائیلی پارلیمنٹ) میں کوئی نشست حاصل نہیں کر پائے گی۔
اس دوران جروزلم پوسٹ نے دعویٰ کیا کہ نتانیاہو نے اسموتریچ سے وعدہ کیا ہے کہ غزہ میں قیدیوں کے تبادلے کے بعد جنگی کارروائیاں دوبارہ شروع کی جائیں گی۔ کچھ ذرائع کے مطابق، اسموتریچ کو مغربی کنارے کے سی علاقے کی تقسیم کے حوالے سے کچھ مراعات دی جا سکتی ہیں۔
مغربی کنارے کی تقسیم:
مغربی کنارے کے علاقے، اوسلو معاہدے کے تحت تین حصوں میں تقسیم کیے گئے ہیں:
1. علاقہ A: مکمل فلسطینی انتظامی اور سیکورٹی کنٹرول
2. علاقہ B: فلسطینی انتظامی کنٹرول اور اسرائیلی سیکورٹی کنٹرول
3. علاقہ C: مکمل اسرائیلی انتظامی اور سیکورٹی کنٹرول
یہ تمام تر تفصیلات اور دعووں کے باوجود، حقیقت یہ ہے کہ شدت پسند صہیونی گروہ اور نتانیاہو کے اتحادی فائر بندی کے اس معاہدے کو صہیونی عوام کے سامنے جواز فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
نتیجہ
طوفان الاقصیٰ آپریشن کے کچھ ہی گھنٹوں بعد، نیتن یاہو نے یوآو گالانت اور بینی گینٹز کے ساتھ اجلاس کے بعد میڈیا کے سامنے اعلان کیا کہ غزہ میں ایک بڑی جنگ شروع کی جا رہی ہے جس کا مقصد اس علاقے کی عسکری، سیاسی اور جغرافیائی صورتحال کو تبدیل کرنا ہے۔ حماس کی تباہی اور غزہ کے جغرافیائی حالات میں تبدیلی وزیر اعظم کے دو اہم وعدے تھے جو قطر کے وزیر اعظم کے ذریعے فائر بندی کے اعلان تک پورے نہیں ہو سکے۔
2024 کے ابتدائی موسم خزاں میں اسرائیلی سیکورٹی کابینہ نے لبنان کی اسلامی مزاحمت کے خلاف جنگ کا آغاز اس شرط پر کیا تھا کہ بے گھر افراد اپنے گھروں کو واپس آئیں گے اور مقبوضہ شمالی فلسطین میں مکمل امن بحال ہوگا۔
لیکن، لبنان کی فائر بندی کے باوجود، بے گھر افراد شمالی علاقوں میں واپس جانے میں ناکام رہے۔ یہ سید حسن نصر اللہ کے اس بیان کی تصدیق کرتا ہے کہ جب تک غزہ کی جنگ ختم نہیں ہوگی، شمالی فلسطین کے بے گھر افراد واپس نہیں آئیں گے۔
مزید پڑھیں: غزہ کی جنگ اور اندرونی بحران سے اسرائیل تباہ
مزاحمت کی حالیہ کامیابی ان مجاہدین کی قربانیوں اور ان شہداء کے خون کا نتیجہ ہے جو غزہ، مغربی کنارہ، لبنان، یمن، شام، عراق اور اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے قربان ہوئے۔