سچ خبریں: امریکی صدر جو بائیڈن کی اندرونی و بیرونی ناکامیوں کے ساتھ ساتھ ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ پہلے مناظرے میں سامنے آنے والی ان کی ذہنی و جسمانی کمزوری ڈیموکریٹس کے دباؤ کا باعث بنی جس کے نتیجے میں بائیڈن نے صدارتی مقابلے سے کنارہ کشی اختیار کی۔
کملا ہیرس نے شیکاگو میں ڈیموکریٹک پارٹی کے چوتھے اور آخری اجلاس میں، جو اوائل ستمبر میں منعقد ہوا، باضابطہ طور پر ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار بننے کی پیشکش کو قبول کیا اور اب وہ ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف انتخابی میدان میں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کیا جو بائیڈن صدارتی انتخاب سے دستبردار ہوں گے؟
5 نومبر کو ہونے والے انتخابات میں دیکھنا ہے کہ سیاسی منظرنامے کے اس اہم مقابلے میں کامیاب امیدوار کون ہوگا۔
سوال یہ ہے کہ بائیڈن نے ٹرمپ کے مقابلے سے دستبرداری کیوں اختیار کی اور اپنی جگہ ہیرس کو کیوں دی؟ کیا یہ فیصلہ بائیڈن کی مرضی سے ہوا یا ان پر دباؤ ڈالا گیا؟
ان سوالات کے جواب میں بائیڈن کی داخلی و خارجی کارکردگی اور ان کی جسمانی و ذہنی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں، جو ان کے کنارہ کشی کے براہ راست اسباب ہیں۔
ناکامیوں کا شکار بائیڈن حکومت – اندرونی مسائل
بائیڈن کی صدارت کے دوران ان کی ناکامیوں اور کمزوریوں پر کثرت سے توجہ دی گئی، خاص کر بڑے داخلی چیلنجز میں، جنہیں تفصیل سے دیکھا جا سکتا ہے:
1. اقتصادی مسائل
بائیڈن حکومت کے اہم مسائل میں سے ایک معاشی نظام کا مؤثر انداز میں انتظام ہے، کرونا وبا کے بعد معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کی کوششوں کے باوجود، مہنگائی میں اضافہ ہوا۔
2022 میں مہنگائی اپنی 40 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی، جس نے زندگی کے اخراجات میں اضافہ اور عوامی نارضامندی کو بڑھاوا دیا، حکومت نے مالی امدادی اور انفراسٹرکچر پروگرامز جیسے اقدامات کیے، مگر مہنگائی کو قابو میں رکھنے میں ناکام رہی۔
2. مہاجرین کے بحران کا مؤثر انتظام نہ ہونا
جنوبی سرحدوں پر غیر قانونی مہاجرت بائیڈن حکومت کے لیے ایک اہم مسئلہ بن چکا ہے، مہاجرین کی تعداد میں اضافہ اور امیگریشن پالیسیوں کے متعلق تنازعات نے ریپبلکن اور کچھ ڈیموکریٹس کی جانب سے سخت تنقید کو جنم دیا۔
ٹرمپ دور کی سخت پالیسیوں کے خاتمے کے بعد، حکومت کی نرم پالیسیاں سرحدی علاقوں میں مسائل کو کم کرنے میں ناکام رہیں اور بعض صورتوں میں ان میں اضافہ بھی ہوا۔
3. پارٹی کی مکمل حمایت حاصل کرنے میں ناکامی
بائیڈن نے 2020 انتخابات میں کامیابی حاصل کی، مگر ڈیموکریٹک پارٹی کی مکمل حمایت حاصل کرنے میں ناکامی کا سامنا رہا، پارٹی کے کچھ حصے گرین نیو ڈیل اور معاشرتی اصلاحات جیسی ترقی پسند پالیسیوں کے حامی ہیں، جنہیں بائیڈن مکمل طور پر پورا نہیں کر سکے، اس اختلاف نے پارٹی میں داخلی تنازعات کو جنم دیا، جس سے حکومت کی کارکردگی متاثر ہوئی۔
بائیڈن حکومت کی ناکام اور بحران زدہ خارجہ پالیسی
خارجہ پالیسی کے میدان میں بائیڈن حکومت کی کارکردگی کو بڑے پیمانے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے، افغانستان سے انخلا، چین اور روس کے ساتھ کشیدگی، خاص کر غزہ میں اسرائیلی نسل کشی کے ساتھ امریکہ کی معاونت نے بائیڈن کی مقبولیت کو بری طرح متاثر کیا۔
1. افغانستان سے تباہ کن انخلا
بائیڈن حکومت کے لیے سب سے بڑا خارجہ پالیسی چیلنج افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا تھا، اگست 2021 میں 20 سال سے زائد کی جنگ اور قبضے کے بعد، بائیڈن حکومت نے اس ملک سے مکمل انخلا کا فیصلہ کیا، مگر یہ انخلا غیر متوقع طور پر تیز رفتار اور غیر منظم انداز میں ہوا جس نے کابل کو طالبان کے ہاتھوں میں دے دیا۔
کابل ایئرپورٹ کی تصاویر، جہاں لوگ ملک سے فرار کی کوشش کر رہے تھے، اس ناکامی کی علامت بن گئیںم منتقدین نے اس فیصلے کو پلاننگ اور کوآرڈینیشن کی کمزوری قرار دیا، جس کے نتیجے میں افغان حکومت تیزی سے گر گئی اور طالبان نے دوبارہ اقتدار حاصل کر لیا۔
2. چین کے ساتھ کشیدہ تعلقات
بائیڈن کے دور میں امریکہ اور چین کے تعلقات خارجہ پالیسی کے حساس ترین مسائل میں سے ایک بن چکے ہیں، بائیڈن حکومت نے چین کی اقتصادی اور تکنیکی طاقت کو محدود کرنے اور دوسری جانب عالمی مسائل میں تعاون کی پالیسی اپنائی۔
تاہم، ٹیکنالوجی پر پابندیاں اور جنوبی چین کے سمندر میں عسکری کشیدگی نے تعلقات میں مزید تناؤ پیدا کیا، تائیوان کا مسئلہ بھی دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک نازک موڑ بن چکا ہے جس سے فوجی تصادم کا امکان بڑھ گیا ہے۔
3. یوکرین بحران کا کمزور انتظام
روس کے یوکرین پر حملے نے بائیڈن کی خارجہ پالیسی کو ایک سنگین چیلنج پیش کیا، بائیڈن حکومت نے یورپی اتحادیوں کو یوکرین کی حمایت اور روس پر پابندیوں کے لیے متحد کیا مگر جنگ روکنے میں ناکام رہی۔
یوکرین کو عسکری اور اقتصادی امداد فراہم کرنے کی کوشش کے باوجود، تنقید کرنے والوں کے نزدیک یہ اقدامات بحران کو بروقت کنٹرول کرنے میں ناکافی رہے اور روس نے اپنی جارحیت جاری رکھی، جس سے بحران اب بھی ماسکو کے حق میں جھکا ہوا ہے۔
4. ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی بحالی میں ناکامی
بائیڈن کی خارجہ پالیسی کا ایک کلیدی وعدہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں واپسی تھا، مگر دو سال کی مذاکرات کے باوجود، بائیڈن حکومت کوئی ایسا معاہدہ حاصل کرنے میں ناکام رہی جو ایران کی ضروریات اور داخلی و بین الاقوامی حمایت کو پورا کرے۔
جوہری معاہدے کی بحالی میں ناکامی نے ایران اور امریکہ کے درمیان تناؤ کو برقرار رکھا اور مشرق وسطیٰ کو غیر مستحکم صورتحال میں چھوڑ دیا، جسے بائیڈن حکومت کی راستے کی ناکامی سمجھا جاتا ہے۔
5. غزہ میں صیہونی حکومت کی جنایت میں مدد
بائیڈن حکومت کی خارجہ پالیسی کی تاریک ترین پہلو رژیم صیہونی کے ساتھ تعاون ہے، جس کے تحت غزہ میں 42 ہزار سے زائد بے گناہ فلسطینی شہریوں کا قتل عام ہوا۔
یہ جرائم امریکی تائید کے ساتھ ہوئے، اور واشنگٹن نے اربوں ڈالر کی مالی اور عسکری مدد فراہم کرکے اس مسئلے کو مزید بڑھایا، اس نے نہ صرف امریکی یونیورسٹیوں میں بلکہ دیگر ممالک میں بھی فلسطین کے حامیوں کی طرف سے شدید احتجاجات کو جنم دیا اور انتخابات کے قریب آتے ہوئے داخلی و بین الاقوامی سطح پر بائیڈن سے ناراضگی میں اضافہ کیا۔
جسمانی و ذہنی کمزوری
بائیڈن کے بارے میں سب سے زیادہ متنازعہ موضوع ان کی بڑھتی عمر اور اس کا ذہنی و جسمانی صلاحیتوں پر اثر رہا ہے، 1942 میں پیدا ہونے والے بائیڈن نے 2020 میں امریکہ کے سب سے عمر رسیدہ صدر کے طور پر وائٹ ہاؤس میں قدم رکھا اور اب 2024 انتخابات کے وقت 82 سال کے ہو چکے ہیں، ہیرس کے حق میں دستبرداری سے پہلے وہ میڈیا میں بار بار غلطیوں کی مشین کے طور پر سامنے آئے۔
ظاہری علامات جیسے کہ آہستہ چلنا، کچھ عوامی تقریبات میں گرنا اور ردعمل میں سستی، اس سوال کو مزید بڑھاوا دیتے ہیں، بائیڈن کے مخالفین کئی بار ان علامات کو ان کی جسمانی صلاحیت میں کمی کی نشانی کے طور پر پیش کرتے رہے ہیں۔
جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ، بعض تنقید کرنے والوں اور حتیٰ کہ حامیوں نے ذہنی صحت پر بھی تشویش ظاہر کی ہے، بار بار کی زبانی غلطیاں، بات چیت میں بھولنا، اور کچھ معلومات یاد نہ رکھ پانا، ان پہلوؤں میں سے ہیں جو بائیڈن کی ذہنی کمزوری کا عندیہ دیتے ہیں، ٹرمپ جسیے سیاسی مخالفین نے بارہا اپنی انتخابی مہم میں ان پہلوؤں کو بائیڈن کے خلاف استعمال کیا۔
خلاصہ
امریکی معیشت کے داخلی مسائل جیسے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی، کرونا پر قابو پانے میں ناکامی، مہاجرین کے بحران کا ناقص انتظام اور دیگر مسائل نے بائیڈن حکومت کو مکمل ڈیموکریٹک پارٹی اور عوامی حمایت کے حصول میں ناکام بنایا۔
بائیڈن حکومت پر اس دوران تنقیدیں ظاہر کرتی ہیں کہ وہ بڑے چیلنجوں سے دوچار رہے، اور غالباً ان کا دور امریکی تاریخ میں ایک پیچیدہ صدارتی دور کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
بائیڈن کی خارجہ پالیسی کو بھی بڑے چیلنجز کا سامنا رہا ہے، جیسے کہ افغانستان اور یوکرین کے بحران، چین اور روس کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگیاں، اور بالآخر غزہ میں نسل کشی کے لیے صیہونی حکومت کی مدد۔ بائیڈن کی خارجہ پالیسی ابھی تک تناؤ اور ناکامی کا شکار رہی ہے۔
مزید پڑھیں: بائیڈن کی انتخابات سے دستبرداری
بائیڈن کے داخلی و خارجہ امور میں ناکام کارکردگی کے ساتھ ساتھ، ان کی عمر رسیدگی اور جسمانی و ذہنی زوال نے ان کی مقبولیت میں گہری کمی لائی۔ مختلف سرووں نے بھی اس حقیقت کو نمایاں کیا، جس کے نتیجے میں ڈیموکریٹک پارٹی نے بائیڈن پر دباؤ ڈالا کہ وہ ہیرس کے حق میں 2024 کے انتخابات سے دستبردار ہو جائیں۔