سچ خبریں: سید حسن نصراللہ نے حزب اللہ کو اپنے ساتھیوں کی مدد سے ایک مقامی لبنانی تحریک سے بڑھا کر ایک اہم علاقائی قوت میں تبدیل کیا، جو صیہونی حکومت کے لیے اندرونی سلامتی کے سب سے بڑے خطرے کے طور پر جانی جانے لگی۔
صیہونی حکومت نے ایک بار پھر اپنی دہشت گردانہ فطرت کو آشکار کیا اور ایک ایسی شخصیت کو شہید کر دیا جو ایمان اور پاکیزگی کی نسل سے تعلق رکھتی تھی، لیکن اس کے اس اقدام نے خود صیہونی حکومت کے زوال کو قریب کر دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کیا سید حسن نصراللہ کو شہید کر کے صیہونی چین سے رہ سکیں گے؟ نیتن یاہو کی زبانی
سید حسن نصراللہ کی شہادت نے دنیا بھر کے آزادی پسندوں کی آنکھوں کو نم کر دیا لیکن ان کی چھوڑی ہوئی وراثت بغیر کسی شک و شبہ کے صیہونی حکومت کے خاتمے کو تیز کرے گی۔
سید حسن نصراللہ کی زندگی پر ایک نظر
سید حسن نصراللہ 31 اگست 1960 کو لبنان کے علاقے البازوریہ میں پیدا ہوئے، 15 سال کی عمر میں انہوں نے اَمَل تحریک میں شمولیت اختیار کی اور 16 سال کی عمر میں دینی علوم کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے نجف گئے۔
وہاں انہیں سید محمد باقر صدر کی سرپرستی میں سید عباس موسوی کے زیر تربیت رہنے کا موقع ملا اور ان کے درمیان قائم ہونے والا یہ تعلق دائمی ثابت ہوا۔
سید نصراللہ نے سید عباس موسوی کی نگرانی میں پانچ سالہ ابتدائی دروس کو صرف دو سال میں مکمل کیا لیکن 1978 میں بعث پارٹی کی حکومت کے دباؤ کی وجہ سے انہیں عراق چھوڑنا پڑا اور وہ بعلبک کے دینی مدرسے میں چلے گئے۔
وہاں انہوں نے دوبارہ اَمَل تحریک میں سرگرمیاں شروع کیں، 1982 میں اسرائیلی جارحیت کے بعد اَمَل تحریک میں اختلافات پیدا ہوئے جس کے نتیجے میں سید عباس موسوی اور سید حسن نصراللہ سمیت کئی شیعہ جوانوں نے اس تحریک سے علیحدگی اختیار کی اور حزب اللہ کی بنیاد رکھی۔
1989 میں سید نصراللہ قم گئے تاکہ اپنی دینی تعلیمات کو مکمل کریں، لیکن حزب اللہ اور اَمَل تحریک کے درمیان بڑھتے ہوئے اختلافات کے باعث 1991 میں لبنان واپس آگئے، 1992 میں سید عباس موسوی کی شہادت کے بعد، سید حسن نصراللہ کو حزب اللہ کا سکریٹری جنرل منتخب کیا گیا اور وہ اپنی شہادت (27 ستمبر 2024) تک اس عہدے پر فائز رہے۔
سید حسن نصرالله کی سربراہی حزبالله کے لیے ایک سنہرہ دور تھا، انہوں نے اس تنظیم کو نہ صرف لبنان میں بلکہ پورے خطے میں ایک اہم قوت میں تبدیل کر دیا۔
تنظیمی ڈھانچہ
سید حسن نصراللہ کی قیادت میں حزبالله نے ایک مضبوط اور منظم ڈھانچہ قائم کیا، اگرچہ یہ کامیابی صرف ایک فرد کی نہیں، بلکہ لبنانی شیعہ دانشوروں کی اجتماعی کاوشوں کا نتیجہ تھی، لیکن سید نصراللہ کی شخصیت اور انتظامی صلاحیتوں نے اس تحریک کو مضبوط و متحد بنایا اور اس کی فکری بنیادوں پر ایک بے نظیر تنظیمی ڈھانچہ تشکیل دیا۔
سکیورٹی اور عسکری قوت میں اضافہ
سید نصراللہ کے دور میں حزبالله کی عسکری قوت میں نمایاں اضافہ ہوا، یہ تحریک ابتدا میں ہلکے ہتھیاروں سے لیس تھی لیکن وقت کے ساتھ اس نے اپنی دفاعی اور جنگی صلاحیتوں کو بڑھایا۔
حزبالله نے نہ صرف صیہونی دشمن کے خلاف لڑنے کے لیے اپنی طاقت میں اضافہ کیا بلکہ شام کے بحران کے دوران دمشق کی حکومت کی مدد کرکے اس ملک کو ٹوٹنے اور دہشت گردی سے بچانے میں اہم کردار ادا کیا۔
طرابلس میں انجام دی جانے والی فوجی کارروائی کو ایک ایسا مثالی آپریشن سمجھا گیا جو دنیا بھر کی فوجی تعلیمی اداروں میں پڑھایا جاتا ہے۔
جدید ہتھیاروں کا اضافہ
سید حسن نصراللہ کے دور میں حزبالله نے اپنے ہتھیاروں کی فہرست میں جدید میزائلوں اور ڈرونز کا اضافہ کیا، جو پہلے صرف محدود ہتھیاروں پر انحصار کرتا تھا۔
حزبالله نے درمیانی رینج کے میزائلوں اور ڈرونز کی مدد سے اسرائیل کے خلاف طاقت کا توازن قائم کیا، جس نے صیہونیوں کے لیے خطرہ پیدا کیا۔
اگرچہ حزبالله کے پاس جدید ترین جنگی طیارے نہیں تھے، لیکن ڈرونز اور سائبر جنگی صلاحیتوں نے حزبالله کو ایک مضبوط قوت بنا دیا۔
الیکٹرانک اور سائبری جنگ
حزبالله نے سائبر اور الیکٹرانک جنگ میں بھی قابلِ ذکر کامیابیاں حاصل کیں، دشمن کے ڈرونز کو مار گرانا اور سائبر حملوں کے ذریعے دشمن کے نظام میں خلل ڈالنا اس کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
علاقائی قوت میں تبدیلی
سید حسن نصراللہ کی قیادت میں حزبالله ایک مقامی لبنانی تحریک سے بڑھ کر ایک اہم علاقائی طاقت بن گئی، 2015 میں صیہونی حکومت نے حزبالله کو اپنے لیے سب سے بڑا اور خطرناک ترین خطرہ قرار دیا۔
سید حسن نصراللہ کی ایک بڑی خصوصیت ان کی تنظیمی مہارت تھی، ان کی آخری تقریر میں، جو ستمبر 2024 میں کی گئی، انہوں نے کہا کہ ممکن ہے کہ میں اور پہلی صف کی قیادت زیادہ دیر آپ کے درمیان نہ رہیں لیکن ہم نے اس قسم کی صورتحال کے لیے تیاریاں کی ہیں، یہی وہ حکمت عملی تھی جو حزبالله کو ہمیشہ ایک مستحکم اور طاقتور تنظیم کے طور پر پیش کرتی رہی۔
سید حسن نصراللہ نے حزبالله کو ایک ایسی تحریک میں تبدیل کر دیا جو صرف لبنان تک محدود نہیں رہی بلکہ پورے خطے میں ایک طاقتور مزاحمتی قوت بن چکی ہے۔
سید حسن نصراللہ کی شہادت شاید صیہونیوں کے لیے وقتی طور پر ایک کامیابی معلوم ہو، خاص طور پر ایسے وقت میں جب وہ خود کو جنگ کی دلدل میں پھنسا ہوا پاتے ہیں، لیکن یہ اقدام طویل مدت میں ان کے لیے ایک سنگین بحران کا باعث بنے گا۔
نیتن یاہو اور صیہونی فوج کے دیگر جرائم پیشہ افراد جیسے کہ آرمی چیف ہرتسی ہالوی اور وزیر جنگ یوآو گالانت، اب دنیا بھر کے مزاحمتی عناصر اور آزادی کے خواہاں لوگوں کی نظر میں متحرک ہدف بن چکے ہیں۔
اس صورتحال کی ایک مثال سلمان رشدی کے کیس میں دیکھی جا سکتی ہے، جسے اپنی گستاخی کے بعد گزشتہ چار دہائیوں سے بھاری سکیورٹی اخراجات کے تحت خفیہ زندگی گزارنا پڑ رہی ہے جب بھی وہ منظر عام پر آیا، اسے موت کا خوف لاحق رہا، یہی صورتحال اب سید حسن نصراللہ کے قاتلوں کو بھی درپیش ہوگی۔
مزید پڑھیں: آیت اللہ سیستانی کی نظر میں سید حسن نصراللہ
آخر میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ صیہونی حکومت نے اس جرم کے ذریعے اپنے آپ کو زوال کے ایک اور قدم قریب کر دیا ہے، یہ زوال اللہ کی طرف سے ایک یقینی وعدہ ہے، اور شہداء کا خون اس راہ کو ہمیشہ کے لیے روشن کرتا ہے، سید مقاومت، اپنی عظیم حیات کے آخری مرحلے میں، شہادت کی صورت میں اللہ سے ملاقات کو پہنچے اور اس سے بہتر انجام ان کے لیے ممکن نہ تھا۔