🗓️
(سچ خبریں) دنیا کے نظام، بقا اور استحکام کے اصولوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات سمجھنا دشوار نہیں کہ کسی بھی ملک یا قوم کے لیے تعمیر اور تخریب کے دونوں حیلوں کو بہ یک وقت اختیار کرکے وقتی فائدہ اٹھانا تو بے شک ممکن ہے، لیکن اس طرح دوررس نتائج بہرحال حاصل نہیں کیے جاسکتے، اور نہ ہی ایسی صورتِ حال میں اپنی بقا کا یقینی سامان کیا جاسکتا ہے۔
امریکا کو اس وقت جس بنیادی مسئلے کا سامنا ہے، وہ تعمیر و تخریب کے بہ یک وقت اقدامات کا پیدا کردہ ہے، اگرچہ امریکا نے اگر کہیں تعمیر کی بھی ہے تو تخریب ہی کے لیئِے کی ہے ورنہ تاریک میں آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ امریکا اتنا شریف ہو جو تعمیری کام انجام دے۔
امریکا نے ایک طرف دہشت گردی کے عفریت کو دنیا کے نقشے پر ابھرنے اور پھیلنے میں مدد دی ہے، جس میں القاعدہ، طالبان داعش اور دوسری دسیوں دہشت گرد تنظیموں کا پیدا کرنا یا ان کی پشت پناہی شامل ہے اور دوسری طرف دنیا کو بیوقوف بنانے کے لیئے اس کی روک تھام کے لیے بھی اقدامات کیے ہیں تاکہ دنیا کا شک اس کی طرف نہ جائے۔
ایسی ہی صورتحال آج سے تقریبا بیس سال پہلے امریکا میں بھی پیدا ہوئی تھی جہاں امریکا نے دہشت گردی کو ختم کرنے کے نام سے ایسی دہشت گردی اور تباہی شروع کی جس کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہوگئے جبکہ ابھی تک امریکا کی پھیلائی ہوئی اس دشہت گردی کی وجہ سے آئے دن سینکڑوں افراد اپنی جانیں گنوا رہے ہیں۔
امریکا میں دن رات اب اسی بات پر سوچ بچار جاری ہے کہ ایسا کون سا راستہ اختیار کیا جائے جس کی مدد سے وہ افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت کو بچاتے ہوئے اپنے قدم جما سکے، اسی لیے آج کل امریکا کے اخبارات پاکستان کو مختلف انداز سے یہ بتانے کی کوشش میں ہیں کہ 2001 میں امریکا اور پاکستان کے درمیان ہونے والے اے ایل او سی اور جی ایل او سی معاہدے کے تحت دونوں ممالک ایک دوسرے سے تعاون کرتے رہے ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ نائن الیون کے واقعے کے بعد ان معاہدوں کی رو سے امریکا کو پاکستان میں اپنے ائر بیس قائم کرنے کی اجازت ملی تھی تاہم ان فضائی اڈوں کو 2011 میں ختم کر دیا گیا تھا۔ اے ایل او سی اور جی ایل او سی کیا ہیں؟ امریکا کو افغانستان میں دہشت گردوں پر حملوں کے لیے فضائی اور زمینی مدد کی ضرورت تھی جس کے لیے پاکستان اور امریکا کے درمیان دو معاہدے ہوئے تھے، ان معاہدوں کے مطابق اے ایل او سی کے تحت امریکا کو فضائی اڈے اور جی ایل او سی کے تحت زمینی راستے استعمال کرنے کی اجازت ملی تھی۔
معاہدے دہشت گردی کی عالمی جنگ کے دوران ہوئے تھے جس کی قرار داد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل میں منظور ہوئی تھی امریکا دوران جنگ بلوچستان میں خضدار کے نزدیک واشک کے علاقے میں قائم شمسی ائربیس اور سندھ کے جیکب آباد میں واقع شہباز ائربیس کو استعمال کرتا رہا ہے۔ ان دونوں ہوائی اڈوں سے امریکا کے طیارے اُڑا کرتے تھے، جبکہ شمسی ائربیس کو امریکی ڈرون حملوں کے لیے بھی استعمال کرتے تھے۔
شہباز ائربیس کو تو 2011 سے پہلے ہی بند کر دیا گیا تھا مگر شمسی ائربیس امریکا کی جانب سے نومبر 2011 میں مہمند ایجنسی میں ہونے والے سلالہ حملے کے بعد بند کیا گیا تھا، اس کے بعد امریکا پر پاکستان کے فضائی اور زمینی راستے استعمال کرنے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ شروع شروع میں امریکا کو افغانستان تک اپنی لاجسٹک پہنچانے کی اجازت بھی نہیں دی جا رہی تھی تاہم بعد میں امریکا کو زمینی راستے فراہم کرنے کی اجازت دے دی گئی تھی اور شمسی ائربیس کو امریکا سے خالی کروا لیا گیا تھا۔ اب بھی امریکا کو زمینی اور فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دی جائے مگر جنگی ہوائی اڈے استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔
20 برسوں تک داعش کو پالنے والے امریکا کی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل کیتھ ایف میکنزی نے نیو یارک ٹائمز کو بریفنگ دیتے اور پاکستان پر احسان کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں القاعدہ اور داعش کے دوبارہ فعال ہو جانے کا خدشہ ہے جس سے خطے کے ملکوں اور خاص طور پر پاکستان کے لیے شدید تشویش کی بات ہے، جی یہ وہی امریکا ہے جس نے 20 برسوں کے دوران افغانستان سے پاکستان پر بھارت کو بدامنی پیدا کرنے کے لیے خصوصی اختیارات دے رکھے تھے اور بھارت کو علاقے کا چودھری بنانے کی کوششوں میں مصروف رہا ہے۔ اس مقصد کے لیے کواڈ کو ایشائی ناٹو کے طور پر بتایا جارہا تھا جس کی سربراہی ایشیا میں امریکا نے بھارت کو سونپ دی تھی۔
افغانستان سے امریکی اور ناٹوکی فوجوں کے انخلا سے چند دن قبل امریکی وزارتِ دفاع میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان تنظیموں کا افغانستان میں دوبارہ فعل ہو جانے کا امکان، وسطی ایشیائی ریاستوں اور ایران کے لیے بھی تشویش کا باعث ہے۔ امریکا کے مشرق وسطیٰ میں اعلیٰ ترین فوجی کمانڈر نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اس سال گیارہ ستمبر تک افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد امریکا کی فوج کے لیے افغانستان میں القاعدہ جیسے دہشت گردی کے خطروں پر نظر رکھنا اور ان کا تدارک کرنا انتہائی مشکل ہو گا۔
جنرل میکنزی نے کہا کہ خطے کے تمام ملکوں کے مفاد میں ہے کہ افغانستان میں استحکام ہو اور شدت پسند گروہوں القاعدہ اور نام نہاد دولت اسلامیہ کو جگہ نہ دی جائے۔ جنرل میکنزی نے کہا کہ ان کے خیال میں امریکی اور ناٹو افواج کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد اگر دباؤ برقرار نہ رکھا گیا تو القاعدہ اور دولت اسلامیہ افغانستان میں دوبارہ منظم ہو سکتی ہیں۔
امریکا نجانے کیوں 2001ء سے اب تک باہر نکلنے کو تیار نہیں ہے 2001ء سے دہشت گردی کی جنگ میں اتحادی ہونے کے نتیجے میں شدید ترین مالی نقصان کے علاوہ پاکستان خود براہ راست دہشت گردی کا نشانہ بن چکا تھا۔ نومبر 2001ء کو امریکا نے جنگ جیتنے کے بعد بھارت سے بھی تعلقات بڑھا لیے تھے جس کے بعد پاکستان نے ان دونوں معاہدوں پر نظر ثانی کی تھی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ امریکا کو پاکستان سے کسی قسم کے حملے کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ مطلب یہ ہے کہ وہ پاکستان میں کوئی فضائی یا زمینی جنگی اڈے قائم نہیں کر سکے گا۔ امریکا زمینی راستوں کو صرف اور صرف اپنی واپسی کے سفر میں استعمال کر سکے گا۔
جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے کہ 2001 میں فضائی اڈے دینے کی وجوہات کچھ اور تھیں۔ اس وقت پاکستان دہشت گردی کے خلاف ایک عالمی مہم کا حصہ تھا مگر اب کی صورتحال کچھ اور کہہ رہی ہے۔ کوئی بھی حکومت پارلیمان کی اجازت کے بغیر امریکا کو ایسی اجازت نہیں دے سکتی جبکہ ایسی اجازت دینے کی صورت میں حکومتوں کو شدید عوامی رد عمل کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔ امریکا نے پاکستان کے بعد اپنے فضائی اڈے قائم کرنے کے لیے روس سے الگ ہونے والی وسطی ایشیا کی ریاستوں سے رجوع کیا تھا تاہم اس کو وہاں پر روس کے بڑھتے ہوئے عمل دخل کی بنا پر اجازت نہیں مل سکی۔ امریکا چاہتا ہے کہ وہ افغانستان سے نکل کر پاکستان میں بیٹھ کر اپنے ہتھیار استعمال کرے۔
امریکا چاہتا ہے کہ افغانستان میں ہاری ہوئی جنگ پاکستان میں بیٹھ کر لڑی جائے مگر اس وقت پاکستان افغانستان میں امن چاہتا ہے۔ پاکستان کسی حد تک دہشت گردی پر قابو پا چکا ہے اور پاکستان افغانستان کی جنگ سے نکلنا چاہتا ہے۔ امریکا کے پاس نہ صرف افغانستان میں کئی فضائی اڈے ہیں بلکہ اس کے علاوہ اس کے بھارت کے ساتھ کئی دفاعی معاہدے ہیں اور بحیرہ عرب میں بھی ان کا جنگی بیڑہ موجود ہے۔ ان حالات کے ہوتے ہوئے نہیں لگتا کہ پاکستان بھی امریکا کو فضائی اڈے فراہم کرے گا۔
یہ ٹھیک ہے پاکستان کی جانب سے امریکا کو ائربیس نہ دینے کی ایک اور بڑی وجہ چین اور روس بھی ہیں۔ پاکستان اور چین دو بہترین دوست ہیں جن کے مفادات مشترکہ ہیں۔ ایک ایسی صورتحال جس میں عالمی سطح پر امریکا کھل کر چین کی مخالفت کر رہا ہو، ایسے میں پاکستان اپنے انتہائی قریبی دوست کی خواہش کے برخلاف امریکا کو فضائی اڈے نہیں دے سکتا۔ پاکستان چین کے مقابلے میں کبھی بھی امریکا کو ترجیح نہیں دے گا۔ لیکن امریکا کے لیے ایشیا میں قدم اُکھڑنے کے رستے ہموار ہوتے جارہے ہیں اور اس میں اب کوئی رکاوٹ نظر نہیں آرہی ہے
مشہور خبریں۔
صیہونی فوج میں بغاوت کے آثار
🗓️ 5 مارچ 2023سچ خبریں:عبرانی ذرائع نے عدالتی اصلاحات کی منظوری کے لیے نیتن یاہو
مارچ
1986 میں شبوا کی جھڑپوں میں داعش اور اماراتی فوجی ہلاک اور زخمی ہوئے
🗓️ 12 جنوری 2022سچ خبریں: خدا کی مدد سے یمنی فوج اور عوامی کمیٹیاں پچھلے
جنوری
پی ڈی ایم حکومت کے خلاف مل کام کرنے کی کوشش میں
🗓️ 16 مارچ 2021اسلام آباد(سچ خبریں)سینیٹ میں چیرمینی کا الیکشن کا ہارنے کے بعد پاکستان
مارچ
ٹرمپ کے داماد کی ریاض میں 2 بلین ڈالر سرمایہ کاری کی تحقیقات
🗓️ 7 جون 2022سچ خبریں:امریکی ایوان نمائندگان نے اس ملک کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ
جون
اقوام متحدہ کا 15 مارچ کو اسلاموفوبیا کے خلاف جدوجہد کا دن مقرر کرنے کا اعلان
🗓️ 16 مارچ 2022سچ خبریں:اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک بل پاس کیا گیا
مارچ
ملک میں جنرل ضیاء اور مشرف دور سے سخت مارشل لاء لگا ہوا ہے، عمران خان
🗓️ 24 ستمبر 2024راولپنڈی: (سچ خبریں) پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان کا کہنا ہے کہ ملک
ستمبر
بائیڈن سیکڑوں تارکین وطن بچوں کو فوجی اڈے پر بھیج چکےہیں:وائٹ ہاؤس
🗓️ 6 مارچ 2021سچ خبریں:ہفتے کو وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین ساکی نے ریپبلکن ممبروں
مارچ
ٹرمپ کا ایران کے خلاف ممکنہ جنگ کا دعویٰ
🗓️ 14 دسمبر 2024سچ خبریں:امریکی نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ ممکنہ
دسمبر