?️
سچ خبریں:ترکی کی معیشت گزشتہ دس سالوں میں زوال کا شکار ہو گئی، مہنگائی میں تاریخی اضافہ، کرنسی کی بے قدری اور حکومتی اصلاحات کی ناکامی نے عوام کو شدید مشکلات میں مبتلا کر دیا ہے۔
دس سال پہلے ترکی کو ایک ابھرتی ہوئی معیشت اور ترقی پذیر ملک کے طور پر تسلیم کیا جاتا تھا،ملک کا مقصد تھا کہ 2023 میں جمہوریہ ترکی کے قیام کے سو سال مکمل ہونے پر وہ دنیا کی دس بڑی معیشتوں میں شامل ہو جائے۔
یہ بھی پڑھیں:ترکی میں معاشی بحران جاری
تاہم 2013 کے بعد سے ترکی کی معیشت مسلسل زوال کا شکار رہی اور ہر سال عوام کیلئے حالات مزید مشکل ہوتے گئے۔
2023 میں، جب ترکی کو اپنے معاشی اہداف حاصل کرنے تھے، ملک کی اقتصادی صورتحال مزید بگڑ گئی اور تمام منصوبے ناکام ہو گئے،اس ملک کے صدر رجب طیب اردوغان نے اس وقت عوام سے وعدہ کیا تھا کہ اگر انہیں دوبارہ موقع ملا تو وہ چند معاشی اصلاحات کے ذریعے ملک کو بحران سے نکال لیں گے۔
لیکن یہ وعدہ بھی پورا نہ ہو سکا۔ آج ترکی کے کروڑوں شہری شدید مہنگائی، بیروزگاری اور غربت کا شکار ہیں اور ان کی خریداری کی طاقت بہت کم ہو چکی ہے،اس کے علاوہ خارجہ پالیسی بھی معیشت کی بہتری میں کردار ادا نہیں کر سکی،ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سال کے آخر تک ترکی میں ڈالر کی قیمت 45 لیرا سے تجاوز کر جائے گی، جس سے پیداوار، صنعت اور برآمدات کے شعبے مزید مشکلات کا شکار ہو جائیں گے۔
اعداد و شمار پر تنازع
اردوغان کے مخالفین کا سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ حکومت کا معاشی ٹیم عوام کو ملک کی اصل معاشی صورتحال سے آگاہ نہیں کرتی اور صرف اعداد و شمار کا کھیل کھیلا جاتا ہے،سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2024 کے آغاز میں ترکی کی سالانہ مہنگائی کی شرح 64.8 فیصد تک پہنچ گئی، جو نومبر 2022 کے بعد سب سے زیادہ ہے،بنیادی مہنگائی 24 سال کی بلند ترین سطح یعنی 70.6 فیصد تک جا پہنچی، جس کی بڑی وجوہات توانائی کی قیمتوں میں اضافہ، سپلائی چین کی رکاوٹیں اور غیر معمولی مالیاتی پالیسیز ہیں،تاہم آزاد تحقیقی اداروں اور نجی شعبے کے مطابق ترکی میں پہلی بار تین ہندسوں کی مہنگائی دیکھی گئی ہے اور اوسطاً مہنگائی کی شرح 108 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔
برآمدات اور درآمدات میں کمی
پیداواری لاگت میں اضافہ ہونے سے ترکی کی برآمدات میں نمایاں کمی آئی ہے،اس کے نتیجے میں تجارتی خسارہ خطرناک حد تک بڑھ گیا،گزشتہ سال ترکی کی درآمدات 344 ارب ڈالر رہیں جبکہ برآمدات بمشکل 262 ارب ڈالر تک پہنچ سکیں،یہ اس وقت ہوا جب حکومت نے درآمدات پر سخت پابندیاں عائد کر دی تھیں اور زر مبادلہ کی کمی و غیر ملکی قرضے کی وجہ سے درآمدات کو کنٹرول کیا گیا۔
ترکی کو درپیش معاشی چیلنجز
2024 اور 2025 میں ترکی کو بلند مہنگائی، ملکی کرنسی کی قدر میں کمی اور سیاسی عدم استحکام جیسے بڑے مسائل کا سامنا رہا،کرنسی کی بے قدری اورسرمایہ کی یورپ منتقلی گزشتہ دہائی کا مستقل مسئلہ رہا ہے،استنبول کے میئر اکرم امام اوغلو کی گرفتاری سے یہ صورتحال مزید بگڑ گئی۔
اس کے نتیجے میں ترکی کی لیرا مزید کمزور ہو گئی اور صرف تین ہفتوں میں مرکزی بینک کو 55 ارب ڈالر کے زر مبادلہ ذخائر فروخت کرنا پڑے۔
ماہرین کے مطابق یہ سیاسی مداخلت معیشت کیلئے نقصان دہ رہی،اپوزیشن رہنما نے ان واقعات کو جمہوریت اور معیشت سے غداری قرار دیا،سیاسی و معاشی عدم استحکام کے باعث غیر ملکی کمپنیوں نے ترکی کی مارکیٹ چھوڑ دی اور یورپی، امریکی اور چینی سرمایہ کاری میں نمایاں کمی آ گئی۔
حکومتی پالیسیز اور مسائل
ایک اور بڑا چیلنج غیر روایتی مالیاتی پالیسیاں اور صدر کی طرف سے بار بار سود کی شرح میں مداخلت تھا،صرف پانچ سال میں تین بار مرکزی بینک کا سربراہ تبدیل کیا گیا،پچھلی پالیسیاں، جن میں افراط زر کے باوجود کم شرح سود رکھی گئی، نے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بری طرح متاثر کیا،اب مرکزی بینک نے شرح سود 49 فیصد تک بڑھا دی ہے، مگر پچھلی پالیسیوں کے منفی اثرات ابھی تک موجود ہیں۔
سیاسی اور بیرونی عوامل کے ساتھ ساتھ، ترکی کی معیشت میں ساختی مسائل بھی ہیں،توانائی اور درآمدی خام مال پر انحصار نے تجارتی خسارے اور کرنسی بحران کو مزید گہرا کیا،اقتصادی ماہرین کے مطابق ترکی کی برآمدات میں زیادہ قدر شامل نہیں کیونکہ صنعتی شعبہ جدید ٹیکنالوجی استعمال کرنے سے قاصر ہے، جس کی وجہ سے مجموعی پیداواری صلاحیت کم ہے۔
اصلاحات کی راہ میں رکاوٹیں
2024 کے آغاز میں حکومت نے معاشی اصلاحات کے لیے اقدامات اٹھائے جن میں مالیاتی نظم و ضبط اور حکومتی اخراجات میں کمی شامل تھی۔
ان اقدامات کے ساتھ ہی ٹیکس آمدنی بڑھانے کیلئے اقدامات کیے گئے، جس نے عوام اور صنعتکاروں پر مالی دباؤ بڑھا دیا۔
حکومت کے درمیانی مدت کے منصوبے (2025-2027) میں درآمدات پر انحصار کم کرنے، مقامی پیداوار بڑھانے اور مالیاتی نظم و ضبط کو ترجیح دی گئی ہے۔
تاہم، حکومتی رویہ اور نجی شعبے کی آزادی سے متعلق مسائل تاحال برقرار ہیں۔
ترکی کے معاشی منصوبوں میں شفافیت، قانون کی بالادستی اور اداروں کی آزادی جیسے اہم نکات شامل تو ہیں، لیکن عملی طور پر حکومت کے بعض اقدامات ان کے برعکس رہے،حکومت سے وابستہ کمپنیوں کو سہولیات دی گئیں جبکہ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے اہم نجی شعبے کے افراد کو مختلف الزامات میں گرفتار کیا گیا۔
مزید پڑھیں:ترکی میں معاشی بحران کی وجوہات کیا ہیں ؟
بحران سے نکلنے کیلئے حکومت غیر ملکی سرمایہ کاری کی تلاش میں ہے لیکن حالیہ کوششیں کامیاب نہیں ہو سکیں۔
عرب ممالک کی سرمایہ کاری صرف قطر، سعودی عرب، کویت اور امارات تک محدود ہے اور یہ ترکی کی مالی ضروریات پوری کرنے کیلئے ناکافی ہے۔
موجودہ صورتحال میں 86 ملین آبادی والے ملک کے بڑے حصے کیلئے زندگی انتہائی مشکل ہو گئی ہے۔
غذا، رہائش اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے نے عام آدمی کو بنیادی ضروریات پوری کرنے میں مشکلات میں مبتلا کر دیا ہے۔
Short Link
Copied
مشہور خبریں۔
ہم امریکہ کے حوالے سے اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کر رہے ہیں : طالبان
?️ 16 فروری 2022سچ خبریں: طالبان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکی صدر
فروری
سعودی وزیر خارجہ کا غزہ کی صورتحال پر یورپی ہم منصبوں سے تبادلۂ خیال
?️ 31 اکتوبر 2023سچ خبریں: سعودی وزیر خارجہ نے اپنے آئرش اور نارویجن ہم منصبوں
اکتوبر
آئی ایم ایف بورڈ کا قرض پروگرام پر مکمل عملدرآمد، ٹیکس کا دائرہ وسیع کرنے پر زور
?️ 29 ستمبر 2024اسلام آباد: (سچ خبریں) بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ایگزیکٹو بورڈ نے
ستمبر
بائیڈن کی تجویز پر السنوار کا ردعمل
?️ 7 جون 2024سچ خبریں: وال اسٹریٹ جرنل اخبار کے مطابق غزہ کی پٹی میں
جون
اعظم سواتی کے استعفی کی مانگ بے تکی بات ہے
?️ 7 جون 2021اسلام آباد(سچ خبریں) وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین نے
جون
عیسائی اکثریتی ملک تنزانیہ کی مسلم خاتون سامعہ حسن نے ملک میں نئی تاریخ رقم کردی
?️ 20 مارچ 2021تنزانیہ (سچ خبریں) عیسائی اکثریتی ملک تنزانیہ کی مسلم خاتون سامعہ حسن
مارچ
اسرائیل اور داعش کا مشترکہ ہدف شام کے بحران کو طول دینا ہے: بسام الصباح
?️ 29 اپریل 2023سچ خبریں:اقوام متحدہ میں شام کے نمائندے بسام صباغ نے اعلان کیا
اپریل
جرمن حکومت کی انتہا پسندی، حماس کے پرچم پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کردیا
?️ 22 جون 2021برلن (سچ خبریں) جرمن حکومت نے انتہا پسندی اور یہود نوازی کا
جون