(سچ خبریں) سعودی عرب جو بھارت کا اہم اتحادی ہے اس نے اب ایک نئی سازش شروع کردی ہے اور شور مچانا شروع کردیا ہے کہ وہ بھارت اور سعودی عرب کے مابین امن اور دوستی کرانا چاتا ہے لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ جس سعودی عرب نے گذشتہ چھے سالوں سے یمن پر وحشیانہ حملے جاری رکھے ہیں وہ امن کی باتیں کررہا ہے۔
اگر سعودی عرب سچ میں امن چاہتا ہے تو پہلے یمن پر وحشیانہ حملے بند کرے اور بھارت سے کہے کہ مقبوضہ کشمیر میں جاری مظالم بند کیئے جائیں پھر اس کے بعد امن اور دوستی کی باتیں کرے، حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب کو نہ ہی امن اور دوستی سے کچھ لینا دینا ہے اور نہ ہی وہ بھارت اور پاکستان کے مابین دوستی کرانا چاہتا ہے، اس کا مقصد صرف اور صرف بھارت کے ساتھ تجارتی سرگرمیاں جاری رکھنا ہے جس کی وجہ سے صرف ظاہری طور اس طرح کا ڈھونگ کررہا ہے۔
عرب نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں سعودی عرب کے نائب وزیر خارجہ عادل الجبیر نے اعتراف کیا ہے کہ سعودی عرب پاک بھارت کشیدگی کم کرانے کے لیے سرگرم ہوگیا ہے، انہوں نے کہا کہ ہم پاک بھارت کشیدگی کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں، سعودی عرب پورے خطے میں امن چاہتا ہے اور اس کے لیے متعدد سطح پر کوشش کرتا ہے۔
سعودی عرب کو یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ خطے کا امن مسئلہ کشمیر سے منسلک ہے، بھارت پہلے دن سے کشمیر پر اپنے ناجائز قبضے سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں، اہل کشمیر کسی قیمت اس قبضے کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں، جب تک مسئلہ کشمیر اہل کشمیر کی امنگوں کے مطابق حل نہیں کیا جاتا پاکستان اور بھارت کے مابین اور خطے میں امن ممکن نہیں۔
کیا سعودی عرب ایسا کرسکتا ہے، کیا اہل کشمیر کی جدوجہد آزادی کا ساتھ دے کر سعودی عرب بھارت کو ناراض کرسکتا ہے،
2019 میں جب نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق کیا تھا ان دنوں سعودی عرب نے بھارت میں سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا جبکہ پاکستان میں سعودی عرب کی سرمایہ کاری کی خواہش محض گوادر تک محدود ہے اور وہ بھی آٹھ دس ارب ڈالر تک، اس کے بھی کوئی امکان نہیں کیونکہ گوادر چین کی عملداری میں ہے، چین کی گوادر میں عظیم انوسٹمنٹ اور مفاد ہیں، چین گوادر میں امریکی اتحادی سعودی عرب کی موجودگی برداشت کرے گا؟ یہ ایک متنازع معاملہ ہے۔
سعودی عرب ہر سال بھارت کو 27 ارب ڈالر کا آئل فروخت کرتا ہے اور وہ بھی نقد میں، پاکستان تین ارب ڈالر کا آئل سعودی عرب سے لیتا ہے اور وہ بھی لمبی مدت کے قرضے پر، مدت پوری ہونے پر سعودی عرب سے قرض لے کر ہی جس کی ادائیگی کی جاتی ہے۔
سعودی عرب کی سب سے بڑی آئل کمپنی نے بھارت کے ایک بڑے ملٹی نیشنل ریلائنس گروپ کے ساتھ 15ارب ڈالر کی انوسٹمنٹ کی ہے، اس کے شیئرز خریدے ہیں، اس کے علاوہ 27 لاکھ ہندوستانی باشندے سعودی عرب میں کام کرتے ہیں۔
سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان اب وہ پہلے جیسی قربتیں نہیں ہیں، مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بارے میں سعودی عرب کا موقف یہ ہے کہ یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے، بالاکوٹ حملے کے بعد بھی سعودی عرب پاکستان سے زیادہ بھارت کے قریب تھا۔
باخبر حلقوں کا دعویٰ ہے کہ بھارتی پائلٹ کی رہائی بھی پاکستان پر سعودی اور متحدہ عرب امارات کے دبائو کا نتیجہ تھا، اس وقت جبکہ کشمیریوں کو ان کے گھروں میں محصور کرکے بدترین ظلم کا نشانہ بنایا جارہا تھا متحدہ عرب امارات نے نریندر مودی کو اپنے ملک کے سب سے بڑے سول اعزاز سے نواز رہا تھا۔
اس سے پہلے سعودی عرب بھی مودی کو اپنے ملک کا سب سے بڑا سول اعزاز دے چکا ہے، بھارت، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور امریکا ایک گروپ کی شکل اختیار کرچکے ہیں، جن میں سے ہر ایک کو بھارت اور اس کے مفادات عزیز ہیں، پاکستان ان کے نزدیک محض ایک ایسا مجبور دوست ہے جسے کچھ دے دلاکر ساتھ رکھا جاسکتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کشمیر کے معاملے میں ہم کسی بھی ملک کو ساتھ نہ دینے پر کیسے الزام دے سکتے ہیں جبکہ ہم خود کشمیریوں کی جدوجہد کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔
یہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو تھے جنہوں نے شملہ معاہدے کے موقع پر کشمیر کو ایک بین الاقوامی مسئلے کے خانے سے نکال کر بھارت اور پاکستان کا اندرونی معاملہ تسلیم کیا تھا، 5 اگست 2019 کو جب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے بھارتی آئین کی شق 370 کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے ریاست جمون وکشمیر کی نیم خود مختار حیثیت کا خاتمہ کرتے ہوئے اسے بھارت میں ضم کرنے کا اعلان کیا تو پاکستان کی سول اور فوجی قیادت کا ردعمل اس قدر سرد اور لا تعلقی پر مبنی تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
بھارت نے مزید دس ہزار فوج کشمیر میں اُتاردی، کشمیر کو ہڑپ کرلیا لیکن پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اسے بھارت کی سیاسی حماقت قرار دینے سے زیادہ کچھ باور کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔
قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس محض اس اقدام تک محدود رہا کہ بھارت اسلام آباد سے اپنا ہائی کمشنر واپس بلالے، سفارتی تعلقات محدود اور دوطرفہ تجارت کا عمل معطل کرنا یہ وہ غضبناک ردعمل تھا پاکستان کی سول اور فوجی قیادت کی طرف سے جس کا مظاہرہ کیا گیا۔
بھارت کے اس جارحانہ اقدام پر ردعمل ترتیب دینا اس قدر مشکل کام تھا کہ وزیراعظم عمران خان نے اس کے لیے ایک سات رکنی کمیٹی بنادی، قومی سلامتی کمیٹی کے اس اجلاس میں وزیراعظم عمران خان، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیردفاع پرویز خٹک کے علاوہ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل باجوہ، آئی ایس آئی کے سربراہ اور وزیر قانون بھی شریک تھے۔
مودی کے اس اقدام کو ایک غیر موثر اور معمولی عمل قراردینے کے لیے ہماری طرف سے یہ موقف بھی اختیار کیا گیا کہ ہم تو پہلے ہی آرٹیکل 370 اور 35A کو تسلیم نہیں کرتے تھے لہٰذا مودی کے اس اقدام سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
بھارت نے 1971 میں پاکستان کے دوٹکڑے کردیے، پچاس برس گزر چکے اسلامی تاریخ کی اس بدترین رسوائی کا بدلہ لینے کا خیال بھی ہمارے وہم وگمان میں نہیں۔
امریکا مسئلہ کشمیر کو دفن کرنا چاہتا ہے تاکہ بھارت کی وہ عسکری طاقت جو مقبوضہ کشمیر میں ضائع ہورہی ہے محفوظ رہ سکے اور بھارت خطے کی سب سے بڑی طاقت بن کر ابھر سکے، بھارت نے بھارتی اور کشمیری مسلمانوں کے خلاف جنگ شروع کررکھی ہے اور ہم اس جنگ سے بھاگ کر امن سے رہنا چاہتے ہیں، یہ بات صحیح ہے کہ امن ہونا چاہیئے، دوستی ہونی چاہیے لیکن کیا کسی قوم کو غلام بناکر امن قائم کیا جاسکتا ہے؟
کیا سعودی عرب جو یہ جھوٹے دعوے کررہا ہے کہ وہ بھارت اور پاکستان میں صلح کرانا چاہتا ہے وہ مسئلہ کشمیر پر اپنا موقف واضح کرنے کی ہمت کرے گا؟ حقیقت تو یہ ہے کہ سعودی عرب کا مقصد امن کرانا نہیں بلکہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کو خاموش کرانا ہے تاکہ پاکستان امن کے نام پر خاموش ہوجائے اور مسئلہ کشمیر کے بارے میں بات کرنا چھوڑ دے اور اس طرح بھارت کو بغیر کسی محنت کے مکمل کامیابی حاصل ہوجائے۔
لیکن سعودی عرب یہ یاد رکھے کہ پاکستانی قوم اس کی اس سازش کو کبھی بھی پورا نہیں ہونے دی گی، پاکستانی قوم نے ہمیشہ کشمیری قوم کا ساتھ دیا ہے اور کشمیر کی آزادی تک وہ کشمیریوں کا ساتھ دیتی رہے گے اور جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوجاتا بھارت اور پاکستان کے مابین کسی قسم کی دوستی اور امن برقرار نہیں ہوسکتا۔