سچ خبریں: یمنی مزاحمتی تحریک نے اعلان کیا ہے کہ اگر اسے ایٹمی حملے کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے تب بھی وہ غزہ جنگ کے خاتمے تک اسرائیلی جہازوں کا راستہ روکتا رہیں گے۔
واشنگٹن لندن اتحاد اور یمنی نیشنل آرمی کے درمیان براہ راست تصادم کا وقت آگیا ہے،برطانوی وزیراعظم رشی سونک اور امریکی صدر جو بائیڈن نے فوجی اہداف کے خلاف ایکشن پلان کی منظوری کے بعد یمن پر حملے کا حکم دیا،اس فوجی اتحاد میں آسٹریلیا، کینیڈا، ہالینڈ اور بحرین دیگر مغربی اتحادی ہیں،واشنگٹن اور لندن سے حملے کا حکم جاری کرنے کے بعد امریکی جاسوس ڈرون نے بحیرہ احمر کے جنوب میں پرواز کی۔
یہ بھی پڑھیں: یمنیوں کا بین الاقوامی جہاز رانی کے بارے میں عالمی برادری سے خطاب
مشرق وسطی کے علاقے میں امریکی فضائیہ کے کمانڈر کے مطابق جمعہ 12 جنوری 2024 کی صبح واشنگٹن نے یمنی فورسز کے 16 ٹھکانوں پر 60 اہداف کو نشانہ بنایا جس میں کمانڈ، ٹریننگ اینڈ کنٹرول سینٹرز، گولہ بارود کے ڈپو، میزائل لانچ سسٹم، ڈرون سسٹم، ہتھیاروں کی تیاری کی تنصیبات اور یمنی فضائی دفاعی ریڈار سسٹم ان اہداف میں شامل تھے۔
المسیرہ چینل کے مطابق اس واضح جارحیت میں جنگی جہاز، جنگی بیڑے، ایک آبدوز اور 100 سے زیادہ گائیڈڈ میزائل استعمال کیے گئے جن کے ذریعہ صنعاء کے شمال میں الدلمی ایئر بیس، ہوائی اڈے اور الحدیدہ بندرگاہ کے مضافات، زبید کے علاقوں، صعدہ شہر کے مشرق میں کہلان اڈہ، عبس ہوائی اڈہ، تعز ہوائی اڈہ، التعزیہ علاقے میں ذمار اور 22ویں بریگیڈ کے کیمپ پر حملہ کیا گیا۔
امریکہ اور انگلستان نے یمن پر حملہ کیوں کیا؟
19 نومبر سے اب تک یمن کی قومی فوج نے یونٹی آف دی فیلڈز کی حکمت عملی کی بنیاد پر اور صیہونی حکومت کی فضائی زمینی جارحیت کے خلاف غزہ کی مزاحمت کی حمایت کرتے ہوئے، صیہونی حکومت سے متعلق یا تل ابیب کے اتحادیوں کے تمام تجارتی اور فوجی جہازوں کو نہر سوئز اور آبنائے باب المندب میں اپنے جائز اہداف کے طور پر میزائل حملے کا نشانہ بنایا ہے۔
یمن کے موثر اقدامات نے 10 فیصد عالمی تجارت اور 65 فیصد عالمی کنٹینر تجارت کو متاثر کیا ،بہت سی بڑی مغربی کمپنیوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ اب بحیرہ احمر کو عبور کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور لمبے راستے (Amednik Promontory) کا انتخاب کرکے ہدف کی منڈیوں کی طرف بڑھنے کو ترجیح دیتی ہیں۔
یمنی قومی فوج کی کاروائیوں کے جواب میں امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے مغربی ایشیا کے خطے کے دورے کے دوران 10 ممالک کی موجودگی کے ساتھ بحری اتحاد گارڈینز آف ویلفیئر کے قیام کا اعلان کیا،اس میری ٹائم سکیورٹی گشت کی تاثیر کو ثابت کرنے کے لیے مغربی میڈیا کے پروپیگنڈے کے باوجود، یمنی بحیرہ احمر اور باب المندب میں اسرائیل مخالف کامیاب کاروائیوں کو دہراتے ہوئے امریکی بحری اتحاد کی ساکھ کو تیزی سے تباہ کرنے میں کامیاب رہے۔
ایسی صورت حال میں واشنگٹن نے غزہ کی پٹی میں اسرائیلی جنگی مشین کو روکنے کے لیے کوئی سنجیدہ اقدام کیے بغیر تہران کو ثالثی کے ذریعے یمنی مزاحمت کو روکنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی،اس درخواست کے جواب میں تہران نے دفاعی علاقے میں اپنے اتحادیوں کی آزادی اور بحیرہ احمر کی سلامتی کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ یمنیوں کی مرضی پر چھوڑ دیا۔
بحیرہ احمر میں یمنی قومی فوج کی اسرائیل مخالف کاروائیوں کا تسلسل سلامتی کونسل سے امریکہ اور جاپان کی یمن مخالف قرارداد کی منظوری کا سبب بنا،اس سیاسی قرار داد میں یمنی مزاحمت کے لیے ایران کی مسلح حمایت کے حوالے سے بعض بے بنیاد دعووں کو دہراتے ہوئے (بالواسطہ) یمنی نیشنل آرمی سے کہا گیا ہے کہ وہ بحیرہ احمر میں بحری جہازوں پر حملوں کو عمل فوری طور پر روک دے، اس قرارداد کو چین، روس، الجزائر اور موزمبیق کی مخالفت کے باوجود 11 ووٹوں کے ساتھ منظور کیا۔
مسئلۂ فلسطین کی حمایت میں یمنی خنجر
جمعرات 11 جنوری کو ریاستہائے متحدہ کے کمانڈ سینٹر، جسے CENTCOM کے نام سے جانا جاتا ہے، نے خلیج عدن میں شپنگ لائنوں پر فائر کیے جانے والے اینٹی شپ بیلسٹک میزائلوں کے بارے میں ایک بیان جاری کرنے کا اعلان کیا،برطانوی میری ٹائم ٹریڈ سنٹر کے اندازوں کے مطابق یہ واقعہ 19 نومبر سے صیہونی حکومت کے جہازوں پر 27 واں مزاحمتی حملہ تھا۔
یمن میں اسٹریٹجک اہداف پر امریکی اتحاد کے حملے کے آغاز سے صرف چند گھنٹے قبلبرٹش ٹائمز اخبار نے یمنی مزاحمت کے خلاف برطانوی اور امریکی حملوں کے آغاز کو قریب قریب سمجھا۔ چند گھنٹوں بعد ڈیلی ٹیلی گراف اخبار نے بحیرہ احمر میں یمن کی کارروائیوں کا جواب دینے کے لیے لندن-واشنگٹن معاہدے کا اعلان کیا۔
امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے کہا ہے کہ یمن کے خلاف امریکی اور برطانوی فوجی کاروائی کا بنیادی مقصد خطے میں کشیدگی کو مزید ہوا دیے بغیرصنعاء کی جانب سے بحیرہ احمر میں بحری جہازوں کو نشانہ بنانے کے آپریشنل امکان کو محدود کرنا ہے۔
یمن پر امریکی اتحاد کے حملے کے بارے میں بڑھتی ہوئی قیاس آرائیوں کے بعد انصار اللہ تحریک کی سیاسی کونسل کے رکن عبدالسلام جحاف نے X سوشل نیٹ ورک پر لکھا کہ امریکہ کو ہمارے خلاف حملے کرنے دیں؛ یمنیوں کا ردعمل ان کی توقع سے بڑھ کر ہو گا اور یمن پر ہونے والا کوئی بھی حملہ جواب کے بغیر نہیں رہے گا جیسا کہ کمانڈر انچیف (بدرالدین الحوثی) نے کہا کہ یمن کے خلاف کسی بھی امریکی جارحیت کو بغیر جواب کے نہیں چھوڑا جائے گا۔
صنعا کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ محمد عبدالسلام نے اسرائیلی جہازوں پر حملے جاری رکھنے کا اعلان کیا،انہوں نے بحیرہ احمر اور بحیرہ عرب میں یمن کی جانب سے بین الاقوامی بحری جہازوں کو خطرہ نہ ہونے کا ذکر کرتے ہوئے امریکہ اور انگلستان کے اس اقدام کو حماقت قرار دیا جس سے فلسطین اور غزہ کی حمایت کرنے کے یمنیوں کے عزم پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
یمن پر امریکی اتحاد کے حملے پر دوسروں نے کیا کہا؟
یمن کے مختلف علاقوں پر امریکی-برطانوی حملے کے ابتدائی اوقات میں، یمنی مسلح افواج کے سرکاری ترجمان العمید یحییٰ سریع نے امریکی-برطانوی اتحاد کے حوالے سے عبدالملک بدر الدین الحوثی کی تقریر کا ایک حصہ شائع کیا،یمنی مزاحمتی رہنما کی تقریر میں اہم نکتہ صنعاء کا امریکی جارحیت کا قطعی جواب تھا اور ساتھ ہی ساتھ ان کا عرب ممالک کو بحیرہ احمر میں امریکی برطانوی اتحاد میں شامل نہ ہونے کا مشورہ تھا۔
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے یمن پر امریکی اور برطانیہ کے حملوں کے چند منٹ بعد کہا کہ ہم یمن کے متعدد شہروں پر آج صبح امریکہ اور برطانیہ کے فوجی حملوں کی شدید مذمت کرتے ہیں اور اسے ایک من مانی اقدام قرار دیتے ہیں جو واضح یمن کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی اور بینا الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی،ہم بین الاقوامی قوانین اور ضوابط کو خوب جانتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان من مانے حملوں کا خطے میں عدم تحفظ اور عدم استحکام کو ہوا دینے کے علاوہ کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا،ہم عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ذمہ دارانہ ردعمل اور اقدامات کے ساتھ خطے میں جنگ، عدم استحکام اور عدم تحفظ کو پھیلنے سے روکے۔
فلسطینی مجاہدین تحریک نے ایک بیان شائع کرکے یمن کی قوم، حکومت اور فوج کی حمایت اور تعریف کی،اس بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم یمن پر امریکی حملوں کو پوری اسلامی دنیا اور عرب ممالک پر حملہ سمجھتے ہیں اور اس کی مذمت کرتے ہوئے اعلان کرتے ہیں کہ یمن تمام مسلم اقوام کی جانب سے غزہ کی حمایت میں اپنے معزز، اخلاقی اور انسانی موقف کی قیمت ادا کر رہا ہے۔
حزب اللہ جو شمالی محاذ پر اسرائیلی فوج کے ساتھ ٹارگٹڈ اور پیچیدہ جنگ میں مصروف ہے، نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے امریکہ کے اقدامات کی مذمت کی اور واشنگٹن کے نام ایک پیغام میں لکھا کہ ہم دوست اور برادر ملک یمن کے خلاف امریکہ اور برطانیہ کی کھلی جارحیت کی شدید مذمت کرتے ہیں،یمن کے خلاف امریکہ کی جارحیت نے ثابت کر دیا کہ یہ ملک غزہ میں صیہونی حکومت کے تمام جرائم میں ملوث ہے،عراق کی اسلامی مزاحمت نے بھی ایک بیان شائع کرکے اعلان کیا ہے کہ یمن پر حملے کے بعد وہ اپنے پاس موجود ہر چیز کے ساتھ خطے میں امریکی اڈوں پر حملہ کریں گے۔
سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ ریاض بحیرہ احمر میں فوجی آپریشن اور صنعاء میں فضائی حملوں کی پیروی کر رہا ہے،ہم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ بحیرہ احمر کے خطے کی سلامتی اور استحکام کو برقرار رکھا جانا چاہیے اور ہم کشیدگی کو بڑھنے سے روکنا چاہتے ہیں۔
یمن پر امریکی اتحاد کے حملے کے بعد روس کی وزارت خارجہ نے مغرب کے اس اقدام کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا، روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخارووا نے اس حملے کے بارے میں کہا کہ یمن پر امریکی حملے خطے میں کشیدگی کے بہانے سلامتی کونسل کی قراردادوں کو مسخ کرنے نیز بین الاقوامی قوانین کی مکمل پامالی کی ایک اور مثال ہے،اس کے علاوہ روس نے سلامتی کونسل کے مستقل رکن کے طور پر اس بین الاقوامی ادارے کے فوری اجلاس کی درخواست کی۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بھی بحیرہ احمر کی موجود صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ ہم بحیرہ احمر کے علاقے میں کشیدگی میں اضافہ نہیں دیکھنا چاہتے کیونکہ اس سے عالمی تجارت پر منفی اثر پڑے گا،بحیرہ احمر ایک اہم ٹرانزٹ علاقہ ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ تمام فریق تحمل کا مظاہرہ کریں گے اور خطے کی سلامتی کو برقرار رکھنے میں ذمہ دارانہ کردار ادا کریں گے،ہم بحیرہ احمر میں صورتحال کو پرسکون کرنے کے لیے تمام فریقوں کے ساتھ رابطہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔
مغربی جارحیت کے خلاف یمنی مزاحمت کا منہ توڑ جواب
یمن پر حملے میں امریکی اور برطانوی جارحوں کا سب سے اہم چیلنج بحیرہ احمر میں یمنی قومی فوج کے حملوں کو روکنے اور جنگ کے دائرہ کار کو عرب کے دوسرے حصوں تک پھیلانے سے روکنے کے لیے توازن کی منزل تک پہنچنا ہے،جمعہ 12 جنوری کو صبح سویرے ہونے والے حملے سے قبل صنعاء نے واشنگٹن لندن کی جارحیت کا قطعی جواب دینے کا اعلان کیا نیز یمن کی نیشنل سالویشن گورنمنٹ نے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کو خبردار کیا ہے کہ اگر انہوں نے اپنے آسمان کو امریکی جنگی طیاروں کی پرواز کے لیے کھول دیا تو یہ اقدام یمن کے خلاف اعلان جنگ ہوگا،یمن پر امریکی اور برطانوی اتحاد کے حملے کے چند منٹ بعد ہی اس ملک کی مسلح افواج نے بحیرہ احمر میں صیہونی حکومت اور مغربی ممالک کے جنگی جہازوں کو مختلف ہتھیاروں میں نشانہ بنایا،کچھ غیر سرکاری رپورٹوں میں بحیرہ احمر میں امریکی بحری جہازوں میں سے ایک کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
مزید پڑھیں: یمن میں برطانوی اور امریکی فوجی جارحیت
یمنی مزاحمت ہر قسم کے بیلسٹک کروز میزائلوں اور ساتھ ہی ہر قسم کے خودکش آپریشنل ڈرونز سے مستفید ہو کر خلیج فارس کے علاقے، مشرقِ عرب اور ہارن آف افریقہ میں تمام امریکی اڈوں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے،عسکری ماہرین کا خیال ہے کہ امریکی اتحاد میں منامہ کی شمولیت کی وجہ سے یہ ممکن ہے کہ انصار اللہ کا میزائل اسلحہ بحرین میں امریکی فیفتھ فلیٹ کمانڈ سینٹر کو نشانہ بنائے،غور طلب ہے کہ صیہونی حکومت، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا دفاعی نظام یمن پر مغربی ممالک کے حملے کے چند منٹ بعد تیار ہو گیا،صنعا کے ممکنہ ردعمل کے خدشے کے پیش نظر خطے میں امریکہ کے اتحادیوں کو چوکنا کر دیا گیا اور وہ تنازع کے فریقین سے رابطہ قائم کر کے خطے میں کشیدگی کے دائرہ کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
خلاصہ
یمنی قومی فوج سے وابستہ فوجی اہداف پر امریکی اتحاد کی طرف سے میزائل حملوں کی پہلی لہر کے خاتمے کے بعد؛ صنعا نے اعلان کیا کہ اس ملک پر حالیہ امریکی اور برطانیہ کے حملے سے غزہ کی مزاحمت کی حمایت بند نہیں ہو گی،یمنی مزاحمت نے اعلان کیا ہے کہ اگر ان پر ایٹمی حملہ کیا جائے تو بھی وہ غزہ جنگ کے خاتمے تک اسرائیلی جہازوں کا راستہ روکتے رہیں گے، یمن میں فوجی اہداف پر حملے کے ساتھ ہی، واشنگٹن نے ثالثی چینلز کے ذریعے یہ پیغام بھیجا ہے کہ اس ملک کا یمن کے ساتھ کشیدگی کے دائرہ کار کو بڑھانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے اور وہ صرف بحیرہ احمر کے علاقے میں انصار اللہ کی کارروائیوں کو روکنا چاہتا ہے،ایسا لگتا ہے کہ مغربی ممالک شمالی بحر ہند میں یمن کی غیر متناسب قوتوں سے لڑنے کی دشواریوں اور عالمی تجارت کے لیے اس جنگ کا دائرہ وسیع کرنے کے خطرات سے آگاہ ہیں،یمن پر امریکی اتحاد کے حملے کے بعد تیل کی قیمتوں میں 2.5 فیصد سے زائد اضافہ ہوا،بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ واشنگٹن یمن میں فوجی اہداف پر حملے کر کے غزہ کی پٹی کے لیے عرب ملک کی حمایت کو روکنا چاہتا ہے لیکن یمن کی مزاحمت نے ثابت کر دیا ہے کہ صہیونی فوج کے مکمل انخلاء تک بحیرہ احمر، باب المندب آبنائے اور خلیج عدن میں تل ابیب اور مغربی ممالک کے مفادات کے خلاف کارروائیاں نہیں رکیں گی۔