سچ خبریں:امریکی مزاحمتی محور کے ساتھ منصوبہ بند تنازعات پیدا کرکے ایک مصنوعی بحران پیدا کرنا چاہتے ہیں تاکہ شام میں رہنے کا جواز فراہم کر سکیں۔
اس وقت جب کہ مغربی ایشیائی خطے میں مزاحمت کے محور اور عرب ممالک کے درمیان کشیدگی کم ہو رہی ہے، شام میں مزاحمت اور امریکی دہشت گردوں کے درمیان کشیدگی کی سطح میں اضافہ ہوا ہے،ایسا لگتا ہے کہ علاقائی مساوات میں اپنی پوزیشن میں کمی کو سمجھنے کے بعد، واشنگٹن فوجی مہمات بنا کر خود کو ایک اہم اور بااثر اداکار کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے، دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ مشرق وسطیٰ میں اپنے وجود کا اعلان کرنے کے لیے امریکہ کا ہتھیار جنگ اور بحران کی زبان ہے۔
امریکی دہشت گردوں اور مزاحمتی قوتوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ دو متضاد ارادوں کے تصادم کو ظاہر کرتا ہے، جن میں سے ایک شام کے توانائی کے وسائل پر غلبہ حاصل کرنا چاہتا ہے اور دوسرا دمشق میں علاقائی سالمیت کی حفاظت اور قومی خودمختاری کو بحال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
امریکی جارحیت کا دندان شکن جواب
جمعہ کی صبح امریکی بمباروں نے شام کے صوبہ دیرالزور کے مشرق کے ہرابش محلے میں واقع غلہ جمع کرنے کے مرکز اور دیہی ترقی کے مرکز کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں پانچ افراد زخمی ہوئے۔ اسی دوران بعض شامی ذرائع نے اعلان کیا کہ کچھ نامعلوم جنگی طیاروں نے عراقی سرزمین سے مشرقی شام کے صوبہ دیرالزور کی طرف متعدد میزائل داغے اور پھر کچھ فاصلے پر پرواز کرتے ہوئے الحسکہ محلوں کی آواز کی دیوار کو بھی توڑ دیا۔
یاد رہے کہ 24 مارچ 2023 کو امریکی ذرائع نے اعلان کیا کہ ایک آپریشن میں مزاحمتی فورسز نے 60 سے زیادہ ڈرونز، میزائلوں اور راکٹوں سے اس ملک کے تین (غیر قانونی) اڈوں العمر آئیل فیلڈ، التنف اور صوبہ دیر الزور میں واقع کونیکو بیس پر حملہ کیا جس کے دوران کم از کم ایک امریکی فوجی ہلاک اور 6 زخمی ہوئے،نیویارک ٹائمز اخبار کو دو امریکی حکام نے بتایا کہ عجیب بات یہ ہے کہ اس دوران امریکی اڈوں کا اہم دفاعی نظام اونجر نیم فعال ہو گیا دوسری جانب امریکی جارحیت پسندوں نے مزاحمتی محور سے تعلق رکھنے والے متعدد مقامات کو نشانہ بنایا۔
اس دہشت گردانہ حملے کے بعد وائٹ ہاؤس کے ترجمان جان کربی نے شام میں کشیدگی بڑھنے کے خدشے کے پیش نظر اعلان کیا کہ امریکہ ایران کے ساتھ تصادم کا خواہاں نہیں ہے۔ لیکن ہم امریکی شہریوں اور اپنے ساز و سامان کی حفاظت کے لیے تیار ہیں،اس کے بعد امریکی مسلح افواج کے کمیشن کے سربراہ نے بھی اسی طرح کے بیان میں دھمکی دی کہ یہ ملک امریکی افواج کے خلاف کسی بھی دھمکی کا جواب دے گا،تنازع کی پہلی لہر کے بعد، پینٹاگون نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے شام میں ایرانی مقامات پر تقریباً 20 میزائل داغے،دوسری جانب مزاحمتی فورسز نے بھی شام میں امریکی اڈوں پر 8 جارحانہ ڈرونز سے بمباری کی،اس کارروائی کے جواب میں امریکی جارحیت پسندوں نے دیرالزور ہوائی اڈے اور خشام گاؤں میں مزاحمتی ٹھکانوں پر حملہ کیا جس کے بعد ایران کے مشاورتی مرکز نے۔ ایک غیر معمولی بیان میں امریکی دشمن کو خبردار کیا ہے کہ اگر شام میں ایرانی افواج یا اڈوں کو نشانہ بنایا گیا تو اس کا دندان شکن جواب دیا جائے گا، جبکہ کشیدگی میں اضافے کے بعد بعض ذرائع نے دعویٰ کیا کہ مغربی عراق اور شام کی فضا کو شہری پروازوں سے صاف کر دیا گیا۔
ایران کے خلاف امریکہ کی ڈیٹرنس کا فقدان
شام میں غیر قانونی امریکی اڈوں پر مزاحمتی فورسز کے حملے کے بعد امریکی ایوان نمائندگان کی خارجہ امور کی کمیٹی کے سربراہ مائیکل مک کاول نے ایک بیان میں ایران پر الزام عائد کرتے ہوئے اعلان کیا کہ تہران کے خلاف امریکی ڈیٹرنس کی صلاحیت ختم ختم ہوچکی ہے، درایں اثنا سابق امریکی وزیر خارجہ اور ریپبلکن پارٹی کی ایک اہم شخصیت مائیک پومپیو نے امریکی اڈوں پر مزاحمتی فورسزز 78 حملوں کا ذکر کرتے ہوئے انتخابی بیان میں دعویٰ کیا کہ بائیڈن انتظامیہ نے ان حملوں میں سے صرف 3 کا جواب دیا ہے، انہوں نے متحارب لہجے اپناتے ہوئے ایران کے خلاف امریکہ کی مسلسل کمزوری کو خطے میں کشیدگی میں اضافے کا سبب قرار دیا، ریپبلکن پارٹی سے وابستہ سینیٹر ٹام کاٹن نے ایران کے حوالے سے بائیڈن کے غیر فعال موقف پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر بائیڈن ایران کے درجنوں سابقہ حملوں کا فیصلہ کن جواب دیتے تو اس سانحے سے بچا جا سکتا تھا،انہیں بتانا چاہیے کہ انہوں نے ایران کے خلاف مزید عبرتناک اقدامات کیوں نہیں کیے؟
جارحیت کا جواب دینے کے لیے تیار
اعلیٰ امریکی حکام کے ایران مخالف اور دھمکی آمیز بیانات کے بعد ایرانی سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کے ترجمان کیوان خسروی نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے ملک کی تاریخ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امریکی فریق کو خبردار کیا ہے سرکاری طور پر دمشق مدعو بلائے جانے والی ایرانی افواج کے کسی بھی اڈے پر اگر حملہ کیا گیا تو مزاحمتی فورسز بلا تاخیر جواب دیں گی،ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے شام کے دیرالزور میں شہری اہداف پر امریکی حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ شام کے بعض حصوں پر امریکہ کی مسلسل غیر قانونی موجودگی اور اس ملک میں مختلف اہداف پر حملے بین الاقوامی قوانین اور سرزمین شام قومی خودمختاری اور سالمیت کی خلاف ورزی ہے،انہوں نے شام میں ایران کے فوجی مشیروں کی موجودگی کو اس ملک کی حکومت کی سرکاری دعوت اور دہشت گردی کے خلاف جنگ نیز خطے میں امن و استحکام کے قیام کے سلسلے میں اہم قرار دیا۔
خلاصہ
ایران اور امریکہ کے درمیان گزشتہ چند دنوں کی جھڑپیں گزشتہ 3 سالوں میں غیر معمولی تھیں،ماہرین کے مطابق بیجنگ کے درمیان معاہدے کے اعلان اور ریاض اور دمشق کے درمیان تعلقات میں بہتری کے بعد اب واشنگٹن اور صیہونی حکومت عراق اور شام کی سرزمین سے گزرنے والی خلیج فارس بحیرہ روم راہداری کی تکمیل کے حوالے سے کافی پریشان ہیں، اسی مناسبت سے حالیہ ہفتوں میں امریکی طیاروں نے داعش کی افواج کو خطے میں مذہبی سازش کو دوبارہ فعال کرنے کے لیے منتقل کیا۔
دوسری طرف امریکی مزاحمتی محور کے ساتھ منصوبہ بند تنازعات پیدا کرکے ایک مصنوعی بحران پیدا کرنا چاہتے ہیں تاکہ شام میں رہنے کا جواز فراہم کر سکیں، تاہم ایسا لگتا ہے کہ شامی حکومت اور عوام مزاحمتی فورسز کے ساتھ مل کر شام کے شمال-شمال مشرقی علاقوں سے غیر ملکی حملہ آوروں کو نکال باہر کرنے اور اس ملک میں قومی خودمختاری کی بحالی کے لیے سنجیدہ عزم رکھتی ہے جس کے نتیجہ میں بلاشبہ امریکہ کی جانب سے بحران پیدا کرنے والے اقدامات کو سخت مزاحمتی ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا اور مغربی ایشیا کے تمام ممالک سے قابض افواج کو نکال باہر کرنے کا وقت اور قریب ہو جائے گا۔