سچ خبریں: صوبہ پنجاب کے ضلع سرگودھا کے رہائشی حیدر علی، گوجرانوالہ کے رہائشی ان کے خالہ زاد بھائی عمر فاروق اور شعیب اختر کو عراق کے دارالحکومت بغداد میں مختلف الزامات کے تحت پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے۔
عراق کی رسافہ سنٹرل کورٹ کے تین رکنی ججوں پر مشتمل بینچ نے پاکستانی شہریوں عمر فاروق، حیدر علی اور شعیب اختر کو دو الگ الگ مقدمات میں مجرم قرار دیتے ہوئے سزائے موت کا حکم دیا ہے، تاہم، اس فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدالت میں اپیل کرنے کا حق موجود ہے۔
پاکستانی شہریوں کی گرفتاری اور سزا
حال ہی میں پاکستان کے وزیر مذہبی امور چوہدری سالک حسین نے سینیٹ کمیٹی کو بتایا تھا کہ تقریباً 50 ہزار پاکستانی عراق میں موجود ہیں جو مقدس مقامات کی زیارت کے لیے جاتے ہیں اور واپس نہیں آئے۔
یہ بھی پڑھیں: سفری ویزا کی چھوٹ کیلئے عراق، پاکستان کے مابین مفاہمتی یادداشت پر دستخط
سفارتی ذرائع کے مطابق، عدالتی کارروائی کے دوران پاکستانی سفارت خانے کا عملہ موجود تھا اور تینوں ملزمان نے اقرار جرم کر لیا تھا، عراقی پولیس نے چند ماہ قبل ان پاکستانی شہریوں کی تصدیق کی تھی۔
ملزمان کے اہلخانہ کے دعوے
شعیب اختر کے والد محمد اختر کا دعویٰ ہے کہ ان کے بیٹے کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور عدالتی کارروائی کے دوران صفائی کا موقع نہیں دیا گیا۔
الزامات اور عدالت کا فیصلہ
عراقی عدالت نے عمر فاروق، حیدر علی اور شعیب اختر کو انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت سزائے موت سنائی، شعیب اختر کو دہشت گرد گروپ بنانے، شکایت کنندہ شہاب کاظم حسن پر فائرنگ کرنے اور اس کی دکان لوٹنے کے جرم میں سزا سنائی گئی، ایک اور مقدمے میں ملزم کو افسر ہیمن کریم احمد کو قتل کرنے کے جرم میں سزائے موت دی گئی۔
عدالتی تفصیلات اور میڈیا رپورٹس
عدالتی فیصلے میں مزید تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں، تاہم عراقی میڈیا کا کہنا ہے کہ ایک پاکستانی شہری نے مبینہ طور پر ہجوم میں عراقی شہریوں پر فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں پیٹرولنگ پر موجود افسر ہیمن کریم احمد ہلاک ہو گئے۔
عدالتی فیصلے کے مطابق، ملزمان 31 جولائی کو سنائے جانے والے فیصلے کے 30 دن کے اندر وفاقی عدالت میں اپیل کرنے کا حق رکھتے ہیں
حیدر علی کی بہن ارم منیر کا بیان
حیدر علی کی بہن، ارم منیر، نے بتایا کہ ان کے بھائی اور خالہ زاد بھائی دونوں اپنے شہروں میں مزدوری کرتے تھے،کسی نے بتایا کہ عراق میں مزدوروں کے لیے اچھے مواقع ہیں اور زیادہ خرچہ بھی نہیں ہے، وہاں مقدس مقامات کی زیارت کے لیے ویزہ آسانی سے مل جاتا ہے۔
ارم نے مزید کہا کہ پہلے میرا خالہ زاد گیا، پھر میرا بھائی بھی چلا گیا،ان کا کہنا ہے کہ دونوں کو عراق گئے چند ہی دن ہوئے تھے کہ ان کی گرفتاری کی اطلاع ملی، وہ تقریباً چھ ماہ سے جیل میں تھے۔
پھانسی کی سزا
ارم نے بتایا کہ چند دن پہلے اطلاع ملی کہ ان کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی ہے، اس دوران ایک دفعہ بھی ہماری بات نہیں ہوئی۔ ہمیں کچھ پتا نہیں وہ کس حال میں ہیں۔
خاندان کی مشکلات
ارم منیر کا کہنا تھا کہ میرے والد فالج کی وجہ سے ہیں،بھائی کی وجہ سے ہی ہمارا گھر چلتا تھا۔ ہم چھ بہن بھائی ہیں۔
عمر فاروق کے والد کا بیان
ایک اور پاکستانی شہری عمر فاروق کے والد، واجد علی کا کہنا ہے کہ میں سوچ سوچ کر پریشان ہوں کہ جس بچے کو کبھی روزی روٹی کمانے سے فرصت نہیں تھی، جس نے کبھی ساری زندگی کسی کو کچھ نہیں کہا، وہ کیسے کسی کو قتل کر سکتا ہے یا دہشت گردی میں شامل ہو سکتا ہے؟
شعیب اختر کے والد کا بیان
شعیب اختر کے والد، محمد اختر، جو خود ڈرائیور ہیں، کے چار بچے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ "جب سے بیٹا گیا ہے، اس وقت سے کام پر بھی نہیں جا سکتا اور جمع پونجی بھی لٹا بیٹھا ہوں۔ میرا تو اپنا گھر بھی نہیں ہے، کرایہ پر رہتا ہوں۔ بیٹے نے عراق جانے سے پہلے کہا تھا کہ وہاں جا کر پیسے بھیجے گا تو اپنا گھر بنا لیں گے۔
وکیل فیس کے نام پر فراڈ
محمد اختر کہتے ہیں کہ تینوں پاکستانیوں کی عراق میں گرفتاری کے بعد ان کا رابطہ عمر فاروق اور حیدر منیر کے خاندان کے ساتھ ہوا، لیکن اپنے بچوں کی مدد کی کوشش میں ان کے ساتھ ایک فراڈ بھی ہوا۔
فراڈ کی تفصیلات
محمد اختر نے بتایا، "عراق کے ایک پاکستانی نے بہت ہمدردی دکھائی تھی۔ اس نے کہا کہ اگر ہم اپنا وکیل نہیں کریں گے تو بچوں کو سزا ہو جائے گی اور اس نے وکیل کرنے میں مدد کی پیشکش کی۔ اس نے کہا کہ شروع میں ساڑھے تین لاکھ پاکستانی روپے دینا ہوں گے اور بعد میں فیس کم کروا لے گا۔ ہم نے پیسے اکھٹے کیے، میں نے کچھ قرض لیا اور شعیب کی ماں نے بچائے ہوئے پیسے دیے۔ مگر بعد میں پتا چلا کہ یہ فراڈ تھا۔”
ارم منیر کا بیان
ارم منیر نے بتایا، "ہم نے وکیل کی فیس کے پیسے پتہ نہیں کیسے اکھٹے کیے تھے۔ کئی لوگوں سے قرض لیا، مگر بعد میں پتا چلا کہ جس پاکستانی نے پیسے منگوائے، وہ فراڈ تھا۔
واجد علی کا بیان
واجد علی نے کہا، "جب ہم نے پیسے بھجوا دیے تو اس نے موبائل نمبر بند کر دیا۔ اب تک وہ نمبر نہیں کھلا۔ ہم کیا کر سکتے ہیں، بچوں کے مقدمے کو اللہ کے حوالے کر دیا ہے۔
وکیل کی عدم موجودگی
ارم منیر نے کہا، "عدالت میں ہمارا وکیل بھی نہیں تھا، وکیل حکومت والوں کا تھا۔ ہمیں پاکستان میں بہت لوگوں نے بتایا تھا کہ حکومتی وکیل کبھی بھی کیس کو اچھے سے نہیں لڑتے، وہ ہمیشہ اپنی حکومت کی طرفداری کرتے ہیں۔”
واجد علی کی پریشانی
واجد علی نے کہا، "مزدور کا بیٹا جس نے دو جماعتیں بھی نہیں پڑھیں، وہ کسی سازش کا شکار تو ہو سکتا ہے مگر وہ دہشت گرد نہیں ہو سکتا۔ ایسا ممکن نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: وفاقی وزیر داخلہ کی عراقی سفیر حامدعباس لفطاہ سے ملاقات
محمد اختر کا بیان
محمد اختر نے کہا، "ہمیں کچھ پتا نہیں کہ عدالت میں کیا ہوا۔ وہاں کی پولیس نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ ہمیں کبھی کسی نے کوئی تفتیش نہیں دکھائی اور نہ ہی ہمیں پتا ہے کہ ان پر کس دہشت گردی کے الزامات ہیں۔ ہمیں جو کچھ پتا چلا وہ سوشل میڈیا یا وہاں پر موجود کچھ پاکستانیوں نے بتایا، وہ پاکستانی بھی ان کی بات کرتے ہوئے ڈرتے ہیں اور اب تو وہ فون بھی نہیں اٹھاتے ہیں۔