کراچی: (سچ خبریں) کراچی پولیس چیف نے افسران کو حکم دیا ہے کہ لاپتا بچوں کی بازیابی کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں۔واضح رہے کہ گزشتہ چند روز کے دوران کراچی سے 3 بچے لاپتا ہو گئے تھے، جس پر وزیراعلیٰ سندھ اور وزیر داخلہ نے نوٹس لیا تھا اور پولیس کو فوری اقدامات کرنے کی ہدایت کی تھی۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر کراچی پولیس کی جانب سے جاری بیان کے مطابق ایڈیشنل آئی جی کراچی جاوید عالم اوڈھو کی زیر صدارت کراچی پولیس آفس میں اجلاس منعقد ہوا، جس میں لاپتا اور اغوا شدہ بچوں کی بازیابی، امن و امان اور ٹریفک مینجمنٹ پر غور کیا گیا۔
ایڈیشنل آئی جی نے ہدایت دی کہ بچوں کی بازیابی کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں، پولیس پیٹرولنگ بڑھائی جائے اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف قانونی کارروائیاں تیز کی جائیں۔
ایڈیشنل آئی جی نے کہا کہ عوام کی جان و مال کا تحفظ پولیس کی اولین ترجیح ہے۔
اجلاس میں اہم تنصیبات، پولیس اسٹیبلشمنٹ اور غیر ملکی شہریوں کی سیکیورٹی کو یقینی بنانے، ٹریفک قوانین پر عمل درآمد اور غیر قانونی بس اڈوں و تجاوزات کے خاتمے کے لیے فوری اقدامات پر زور دیا گیا۔
اجلاس میں زونل ڈی آئی جیز، ڈی آئی جی انویسٹی گیشن، ڈی آئی جی سی آئی اے، ضلعی ایس ایس پیز، ایس پیز انویسٹی گیشن، ایس پی اے وی سی سی اور دیگر اعلیٰ پولیس افسران نے شرکت کی۔
واضح رہے کہ کراچی میں بچوں کی گمشدگی کا سلسلہ نہ تھم سکا تھا، اور گزشتہ روز پی آئی بی کالونی سے ایک اور بچہ لاپتا ہوگیا تھا جبکہ گارڈن سے لاپتا ہونے والے بچوں کا 9 روز بعد بھی کچھ پتا نہیں چل سکا ہے۔
اس سے قبل 18 جنوری کو کراچی میں نارتھ کراچی کے علاقے میں 11 روز سے لاپتا 7 سالہ بچے صارم کی لاش گھر کے قریب زیر زمین پانی کے ٹینک سے برآمد ہوئی تھی۔
بعدازاں، پولیس افسر نے تصدیق کی تھی کہ کراچی میں نارتھ کراچی کے رہائشی 7 سالہ متوفی بچے صارم کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا، 11 روز لاپتا بچے کی لاش گھر کے قریب زیر زمین پانی کے ٹینک سے برآمد ہوئی تھی۔
بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ’ساحل‘ کی اگست کی رپورٹ کے مطابق 2024 میں ملک بھر میں بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے کل 1630 کیسز رپورٹ ہوئے۔
اس کے علاوہ سال 2024 کے ابتدائی 6 ماہ میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 862، اغوا کے 668، گمشدگی کے 82 اور کم عمری کی شادیوں کے 18 کیسز رپورٹ ہوئے۔
6 ماہ کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ رپورٹ ہونے والے کل کیسز میں سے 962 متاثرین میں 59 فیصد لڑکیاں تھیں جب کہ 668 یعنی 41 فیصد لڑکے تھے۔