کراچی 🙁سچ خبریں) گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری نے کراچی میں جاری مردم شماری کے عمل پر بڑھتی ہوئی تنقید اور سندھ کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے تحفظات کے پیش نظر باضابطہ طور پر وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ’کراچی سمیت سندھ بھر میں مردم شماری کے لیے ڈیڈ لائن کی شرط ختم کردی جائے، آبادی کو شمار کرنے کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہنا چاہیے جب تک شمار کنندگان یہاں رہنے والے ہر فرد کو رجسٹر نہ کر لیں‘۔
کامران ٹیسوری نے وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال کو لکھے گئے ایک خط میں ڈیجیٹل مردم شماری کے لیے ڈیڈ لائن کی شرط ختم کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ سندھ میں کئی محلے، گھرانے اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو اس دوران شمار ہونے سے رہ گئے ہیں جس کے سبب ایک ماہ سے جاری اس مشق کے نتائج پر سوالیہ نشان کھڑے ہوگئے ہیں۔
گورنر سندھ نے امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن کی زیرِقیادت گورنر ہاؤس میں جماعت اسلامی کے ایک وفد سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اس پیش رفت سے آگاہ کیا۔
حافظ نعیم الرحمٰن سے ملاقات کے دوران کامران ٹیسوری نے ان سے مردم شماری کے معاملے پر بات چیت کی اور اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا، حافظ نعیم الرحمٰن نے کامران ٹیسوری سے یہ معاملہ وفاقی حکومت کے سامنے رکھنے کو کہا۔
گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے کہا کہ ’ایسا کوئی بھی فرد یا جماعت نہیں ہے جو ڈیجیٹل مردم شماری سے مطمئن ہو اور ان کے تحفظات اور اعتراضات بےبنیاد نہیں ہیں، یہ صرف سنی سنائی باتیں نہیں ہیں بلکہ اس عمل میں واقعی کئی خامیاں موجود ہیں، کئی علاقے اور لوگ ہیں جنہیں اب تک شمار ہی نہیں کیا گیا‘۔
انہوں نے کہا کہ ’میں نے ہر پارٹی کے لیڈروں سے بات کی ہے اور کل بھی گورنر ہاؤس میں کچھ پارٹیوں کے لیڈروں کے ساتھ میٹنگ ہوئی جنہوں نے یہی اعتراض کیا، لہٰذا میں نے احسن اقبال کو خط لکھا ہے جس میں ان سے درخواست کی ہے کہ وہ مردم شماری کے عمل کو کسی ڈیڈ لائن کے بغیر جاری رکھیں، صوبے کے ہر ایک فرد کو شمار کرنے کے لیے مردم شماری طویل مدت تک جاری رہنا چاہیے‘۔
اس موقع پر حافظ نعیم الرحمٰن نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے اس مطالبے کو دہرایا کہ کراچی شہر میں رہنے والے ہر فرد کو کراچی کے شہری کے طور پر ہی شمار کیا جائے۔
حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ جماعت اسلامی کے وفد نے مردم شماری پر تحفظات کا اظہار کیا ہے اور اس حوالے سے بطور ثبوت دستاویزات بھی شیئر کی ہیں، انہوں نے کہا کہ ’ہر شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس بات کی تصدیق کرے کہ آیا اسے مردم شاری میں شمار کیا گیا ہے یا نہیں، اس سلسلے میں لوگوں کو ڈیٹا تک رسائی دی جانی چاہیے جو ٹیکنالوجی کے اس دور میں کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے‘۔
انہوں نے مردم شماری کی نگرانی کے لیے شہر کے اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل ایک کمیٹی کی تجویز بھی پیش کی کیونکہ ان کے بقول ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت کراچی کے حقوق غصب کرنے اور صوبے میں موجود جاگیردارانہ نظام اور بالخصوص پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو دوام بخشنے کے لیے کراچی کی آبادی کو کم شمار کیا گیا۔
حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ اگر مردم شماری میں آبادی کو درست طریقے سے شمار نہیں کیا گیا تو کراچی شہر اور کراچی والوں کے وسائل، ملازمتوں اور تعلیم کے کوٹے کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ کے ایوان زیریں اور ایوان بالا میں نمائندگی پر بدترین سمجھوتہ ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی نے 2017 کی مردم شماری پر بھی یہی اعتراض اٹھایا تھا لیکن اس وقت متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اور پاکستان تحریک انصاف نے ’اگلی مردم شماری کی گردان‘ کرتے ہوئے ناقص نتائج کا اعلان کر دیا تھا، اب ایک بار پھر ڈیجیٹل مردم شماری کے نام پر کراچی کی آبادی کو نصف شمار کیا جا رہا ہے۔