(سچ خبریں)ڈالر ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح عبور کرگیا، اوپن مارکیٹ میں ڈالر 200 روپے میں فروخت ہورہا ہے جبکہ انٹر بینک میں ڈالر کی قیمت 197 روپے سے تجاوز کر گئی۔
کاروباری ہفتے کے تیسرے روز 12 بجکر 2 منٹ پر 2 روپے اضافے کے بعد ڈالر نے اپنی ڈبل سنچری مکمل کی اور 200 روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔
انٹر بینک میں بھی روپے کے مقابلے میں ڈالر کی بلندی کا سفر تیزی سے جاری ہے، کاروباری ہفتے کے تیسرے روز انٹر بینک میں ڈالر 199 روپے سے زائد میں فروخت ہورہا ہے، ڈالر کو اپنا ریکارڈ توڑتے ہوئے ایک ہفتہ مکمل ہو چکا ہے، جس کی بڑی وجہ ملک کی بڑھتی ہوئی درآمدات اور غیر ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر میں کمی ہے۔
فوریکس ایسوسی ایشن پاکستان کے مطابق گزشتہ روز کے مقابلے ڈالر کی قدر میں 2 روپے 75 پیسے کا اضافہ ہوا ہے، گزشتہ روز ڈالر 196 روپے 50 پیسے پر بند ہوا تھا جبکہ آج 199 روپے 25 پیسے میں فروخت ہورہا ہے۔
مین ہیٹن بینک کے سابق خزانچی اسد رضوی نے مٹیس گلوبل کو بتایا کہ ’ریکارڈ ترسیلات کا مسلسل بہاؤ بھی ڈالر کی پرواز کو روکنے میں مددگار ثابت نہیں ہو رہا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی، ڈالر کی آمد میں تاخیر اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی خاموشی کے باعث مارکیٹ میں ہلچل ہے جبکہ تیل کی قیمتوں کا 110 ڈالر سے بڑھنا مزید خطرناک ہے‘۔
روپے کے مقابلے ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافے کا موجودہ سلسلہ گزشتہ ہفتے منگل کو شروع ہوا تھا، جب بین الاقوامی کرنسی 188 روپے 66 پیسے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھی، بدھ کو ڈالر کی قیمت 192 روپے اور جمعرات کو 193 روپے 10 پیسے جبکہ پیر کو ڈالر کی پرواز 194 روپے تک جاپہنچی تھی۔
ڈالر نے اپنی قدر میں بلندی کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے گزشتہ روز 196 روپے کا ہندسہ عبور کرلیا تھا۔
فاریکس ایسوسی ایشن پاکستان کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈالر منگل کو 196 روپے 50 پیسے پر بند ہوا تھا، جبکہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے ڈالر کی قیمت 195 روپے 74 پیسے بتائی گئی تھی۔
یہ ایسے اعداد و شمار ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی کرنسی 200 روپے کی نفسیاتی رکاوٹ پر بند ہو رہی ہے۔
ڈالر کی بلاتعطل پرواز سے خبردار کرتے ہوئے اسٹیک ہولڈر نے کہا ہے کہ روپے کی قدر میں مسلسل کمی پاکستان میں مہنگائی دوسری لہر کو جنم سے سکتی ہے، یہ لہر نچلے، متوسط طبقے کو شدید متاثر کرے گی۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر روپے کی قدر میں کمی کا سلسلہ جاری رہا تو کوئی بھی اقتصادی شعبہ ترقی نہیں کرے گا، کلیدی شعبے جن میں ڈیبٹ سروسنگ، صنعتوں کے درآمدات کرنے والے اور اشیائے خورونوش سے متعلق شعبے سب سے پہلے متاثر ہوں گے۔
ٹاپ لائن سیکیورٹیز کے سی ای او محمد سہیل کو کہنا ہے کہ روپے کی قدت میں کمی کی وجہ سے عام شہری ہمیشہ متاثر ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’روپے کی قدر میں کمی کامقصد درآمدات کے اخراجات بڑھنا ہے جس نے مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا اور ان حالات میں امرا کے برعکس غریب اور متوسط طبقے کے زیادہ متاثر ہوں گے۔
لکی موٹر کارپوریشن لمیٹڈ کے سی ای او آصف رضوی کاے مطابق ڈالر کی قیمت میں اضافہ گاڑیوں کی قیمتوں پر بھی اثر انداز ہوگا، مستقبل قریب میں کار کی فروخت متاثر ہوگی۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ کاروں کی خریداری کے اعدادی شمار بہتر ظاہر ہورہے ہیں لیکن شرح سود میں اضافے اور گاڑیون کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے سبب نئی بکنگ میں تیزی سے تنزلی دیکھی گئی ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ امکان ہے کہ آئندہ مہینوں میں آٹو فنانسنگ کی شرح زیرو پر آجائے‘۔
دریں اثنا، ایسوسی ایشن آف بلڈر اینڈ ڈیلوپرز کے کے چیئرمین محسن شیخانی کا کہنا ہے کہ روپے کی قدر میں زبردست کمی کی وجہ سے تعمیراتی سامان کی قیمتوں میں شدید اضافہ ہوا ہے، یہ ایک خطرناک صورتحال ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اپارٹمنٹ کی تعمیر 5 ہزار 500 سے 6 ہزار اسکوائر فٹ پر جاچکی ہے، تین سال قبل یہ قیمت 3 ہزار روپے تھی۔
کرنسی ڈیلرز کے مطابق کی قدر میں ہرگز کمی نہیں دیکھی جاتی ہے، جس کی وجہ سے مقامی کرنسی مستحکم پوزیشن حاصل کرنے میں ناکام ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ڈالر کی زیادہ مانگ کرنسی مارکیٹ میں تیزی کے رجحان کی اہم وجہ ہے، موجودہ حکومت کی طرف سے پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی سبسڈی کو تبدیل کرنے پر سیاسی قدم اٹھایا گیا ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی طرف سے قرض کے پروگرام کو دوبارہ بحالی کے لیے شرط نے اسٹیک ہولڈرز کے اعتماد کو مزید کمزور کردیا ہے۔
دریں اثنا، روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے درآمدات کے اخراجات بے قابو ہورہے ہیں جبکہ برآمدات سست روی کا شکار ہے۔
تیل کی قیمت میں تیزی سے اضافے نے درآمدی بلز کو پہلے ہی دگنا کردیا ہے، علاوہ ازیں تمام تر برآمدی بلوں میں ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا ہے۔
اپریل میں درآمدات میں 72 فیصد اضافی ہوا تھا جس سے حکومت کے لیے بیرونی توازن بیلنس کو بہتر کرنے کی کوئی جگہ نہیں بنی تھی۔
مزید برآں، مرکزی بینک کے غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر جون 2020 سے 10 ارب 30 کروڑ ڈالر سے کم ترین سطح پر ہیں۔
کرنسی ڈیلر کا ماننا ہے کہ غیر متوقع درآمدی بل اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی ایکسچنج ریٹ کے لیے بہتر نہیں ہے جبکہ 13 ارب ڈالر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی حکومت کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں ہے[۔
ایف اے پی کے چیئرمین ملک بوستان کا کہنا ہے کہ ڈالر کی قدر میں اضافے کی ایک اور وجہ اس کی ضرورت سے زیادہ فروخت ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کمرشل بینک انٹر بینک مارکیٹ میں مسلسل اضافی فروخت کر رہے ہیں جس کی وجہ سے اس کی قدر میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہورہا ہے۔