اسلام آباد(سچ خبریں)اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے مسجد نبویﷺ واقعے پر پی ٹی آئی کی قیادت پر توہین مذہب کے مقدمات درج کرنے سے پولیس کو روکتے ہوئے کہا کہ مذہب کو سیاست میں استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے پی ٹی آئی رہنما اور سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی جانب سے مسجد نبویﷺ واقعے پر پارٹی قیادت کے خلاف توہین مذہب کے قانون کے تحت درج مقدمات کو غیرقانونی قرار دینے کے لیے دائر درخواست پر سماعت کی۔
یاد رہے کہ گزشتہ مہینے وزیراعظم شہباز شریف اپنے وفد کے ساتھ مسجد نبویﷺ پر حاضری دینے آئے تو متعدد پاکستانی زائرین نے ان کے خلاف نعرے لگانا شروع کردیے جس کے بعد سابق وزیر اعظم عمران خان، شیخ راشد، فواد چوہدری، قاسم سوری اور شہباز گل کے خلاف مقدمات درج کیے گئے تھے۔
دوران سماعت جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ اپنے فائدے کے لیے مقدمات کا اندراج اپنے نفس کی توہین ہے اور یہ انسانی حقوق کی بہت بڑی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک میں صبر اور استحکام کا ماحول قائم کرے اور اگر صبر قائم نہیں ہوگا تو اس طرح کی چیزیں ہوتی رہیں گی جو کہ غلط عمل ہے، جو کچھ بھی ہوا وہ ٹھیک نہیں تھا۔
انہوں نے ریکارکس دیے کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں درج مقدمات کا جواز نہیں تھا۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ مذہبی جذبات کا احترام ہے مگر ریاست کی بھی ذمہ داری ہے، سیالکوٹ میں سری لنکا کے شہری کو توہین مذہب کے الزامات میں قتل کرنے اور مشعال خان واقعے کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ریاست نے ایسے کام کیے ہوں یا نہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ماضی میں لوگوں کی زندگیان خطرے میں ڈالی گئیں۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ یہ ریاست کی ذمہ داری تھی کہ وہ ان معاملات کی نگرانی کرے، انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ریاست کو چاہیے تمام سیاسی قیادت کو بٹھائے اور پالیسی بنائے کہ مذہب کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہیے، ہم نے پہلے ہی بہت کچھ برداشت کیا ہے۔
پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے جواب دیا کہ مقدمات پہلے وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کیے جانا چاہیے تھے، یہ حکومت کا عزم ہونا چاہیے کہ کبھی بھی مذہبی کارڈ استعمال نہ کیا جائے، یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے فواد چوہدری کی بات پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایسے واقعات ماضی میں ہوتے رہے ہیں۔
تاہم، ڈپٹی اٹارنی جنرل نے اس بات کی نشان دہی کی کہ ایسی درخواستیں عام شہریوں کی جانب سے دائر کی گئی تھیں اور یہ مسجد نبویﷺ واقعے پر عوام کے جذبات کی نشان دہی ہے۔
اس پر فواد چوہدری نے سوال کیا کہ کیا وہ جذبات سے اتنے مغلوب تھے کہ سب نے ایک ہی درخواست دائر کی، اس معاملے سے متعلق قانون بہت واضح ہے۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ اس معاملے پر آئین بھی واضح ہے، سیاست کے کچھ اصول ہونے چاہئیں اور مذہب کا کبھی بھی سیاست میں استمعال نہیں ہونا چاہیے۔
انہوں نے پولیس کو یہ بھی حکم دیا کہ وہ عدالت کو سابقہ مقدمات کی درستی کے حوالے سے قائل کرے اور اٹارنی جنرل کو معاونت کے لیے طلب کیا۔
آج کی سماعت کے آغاز میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے واضح کیا کہ اس نے اس کیس میں پی ٹی آئی قیادت کے خلاف انسداد دہشت گردی یا سائبر کرائم ونگ میں کوئی انکوائری شروع نہیں کی۔
ایف آئی اے کے نمائندے نے عدالت کو آگاہ کیا کہ مقامی پولیس نے مقدمات میں تحقیقات شروع کردی ہیں۔
اس پر پی ٹی آئی کے وکیل فیصل چوہدری نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اسلام آباد پولیس نے ایسی 4 درخواستوں پر تحقیقات شروع کردی ہے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ پی ٹی آئی کے 500 سے 700 رہنماؤں اور حامیوں کو ان مقدمات میں نامزد کیا گیا ہے، ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے خلاف درج مقدمات ختم کیا جائے۔
سماعت کے دوران سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ گزشتہ ماہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کی جانب سے ان کے مؤکل پر حملے کے خلاف درخواست فواد چوہدری کی درخواست کے ساتھ جمع کی جائے۔