اسلام آباد (سچ خبریں) سابق وفاقی وزیر داخلہ اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ناراض سینئر سیاستدان چوہدری نثار علی خان نے 2018 کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے تقریباً 2 سال 10 ماہ کے بعد آج (بروز بدھ) بطور رکن پنجاب اسمبلی حلف اٹھالیا چوہدری نثار علی خان حکومتی چیمبر سے ایوان زیریں میں داخل ہوئے اور داخل ہوتے ہی انہوں نے نشست سے متعلق سوال کیا۔
انہوں نے ساتھ ہی کہا کہ اگر میری نشست نامزد نہیں ہے تو پیچھے بیٹھ جاتا ہوں لیکن ڈی جی پنجاب اسمبلی کی جانب سے بتائے جانے پر چوہدری نثار علی خان صوبائی وزرا کی نشست پر بیٹھ گئے۔
حلف سے قبل سیکریٹری پنجاب اسمبلی محمد خان بھٹی نے چوہدری نثار علی خان سے ملاقات کی اور انہیں واضح کیا کہ پٹیشنز کا اسٹیٹس چیک کرنے کے لیے 2 دن کا وقت مانگا گیا تھا، انہوں نے مزید کہا کہ آپ کے مشکور ہیں کہ آپ نے تعاون کیا۔
یاد رہے کہ 2 روز قبل بھی چوہدری نثار علی خان حلف لینے کے لیے پنجاب اسمبلی آئے تھے لیکن ان کو کہا گیا تھا کہ ان کا حلف نہیں لیا جاسکتا کیونکہ عدلیہ میں ان کے خلاف پٹیشنز زیر سماعت ہیں ہمیں چیک کرنے کا وقت دیا جائے۔
خیال رہے کہ سابق وفاقی وزیر داخلہ اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ناراض سینئر سیاستدان چوہدری نثار علی خان نے 2018 کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی لیکن اس وقت حلف نہیں اٹھایا تھا۔انہوں نے آج (بروز بدھ) انتخابات میں کامیابی کے دو سال 10 ماہ کے بعد بطور رکن پنجاب اسمبلی حلف اٹھا لیا۔
چوہدری نثار علی خان سے رکن صوبائی اسمبلی کا حلف قائم مقام اسپیکر سردار دوست محمد مزاری نے لیا۔بعد ازاں چوہدری نثار علی خان صوبائی اسمبلی کے رکن کے طور پر حلف اٹھانے کے بعد ایوان سے واپس روانہ ہو گئے۔
دوسری جانب ذرائع کے مطابق چوہدری نثار علی خان نے کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لیے سیکیورٹی کے طور پر 60 افراد کو بلایا تھا اور انہوں نے ان افراد کے نام پہلے ہی اسمبلی سیکریٹریٹ سے منظور کروائے تھے۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ چوہدری نثار کے پنجاب اسمبلی آنے کے موقع پر سیکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے سخت سیکیورٹی اقدامات کیے گئے تھے اور کسی کو بھی اسپیکر کے چیمبر تک جانے کی اجازت نہیں تھی۔
بعد ازاں چوہدری نثار نے صوبائی اسمبلی سے جاتے ہوئے میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کی اور بتایا کہ جلد لاہور کا دورہ کروں گا اور صحافیوں سے تفصیلی بات کروں گا۔ان کا کہنا تھا کہ اجلاس میں شرکت نہیں کروں گا صرف اپ لوگوں سے ملاقات کروں گا۔
جب ان سے ایک صحافی نے سوال کیا کہ کس پارٹی میں جا رہے ہیں؟ تو سابق وفاقی وزیر داخلہ نے جواب دیا کہ ابھی کہیں نہیں جا رہا، علاوہ ازیں انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما شاہد خاقان عباسی کے بیان پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔
خیال رہے کہ چوہدری نثار 24 مئی کو حلف اٹھانے کے لیے پنجاب اسمبلی گئے تھے لیکن انہیں بتایا گیا کہ آپ حلف نہیں اٹھا سکتے، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر اسمبلی میں موجود نہیں ہیں۔
سابق وزیر داخلہ نے ڈیڑھ گھنٹہ سیکریٹری اسمبلی محمد خان بھٹی کے ساتھ اسپیکر کے کمرے میں گزارا اور حلف لیے بغیر واپس روانہ ہو گئے۔
تاہم ایوان سے واپسی پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے سابق وزیرِ داخلہ اور مسلم لیگ (ن) کے ناراض رہنما چوہدری نثار احمد نے کہا تھا کہ وہ کسی سیاسی کھیل کا حصہ نہیں ہیں اور اپنے مؤقف پر آج بھی قائم ہیں۔چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ سیاست سے 3 سال تک کنارہ کشی کے بعد میں آج میڈیا کے سامنے پیش ہوا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ آپ جانتے ہیں کہ پچھلے الیکشن میں، میں صوبائی اسمبلی کی نشست سے 34 ہزار سے ووٹوں کی لیڈ سے منتخب ہوا، میں اصل میں قومی اسمبلی کی نشست سے الیکشن لڑ رہا تھا وہاں سے ناکام ہوا یا مجھے ناکام کروایا گیا۔
چوہدری نثار نے سال 2018 کے انتخابات سے قبل 34 سالہ رفاقت کے بعد مسلم لیگ (ن) سے اپنی راہیں جدا کرلی تھیں، پارٹی سے رخصت ہونے سے پہلے انہوں نے کھلے عام شریف برادران کے فیصلوں پر ناراضی کا اظہار کیا تھا، آخری مرتبہ وہ بیگم کلثوم نواز کے جنازے میں شرکت کے وقت دیکھے گئے تھے۔
چوہدری نثار اور شریف برادران کے درمیان اختلافات اس وقت کھل کر سامنے آئے تھے جب سابق وزیر نے کہا تھا کہ وہ انتخابی ٹکٹ کے لیے مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی کمیٹی سے بھیک نہیں مانگیں گے۔
اس کے علاوہ انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے ’خاندانی جماعت‘ بننے پر بھی تنقید کی تھی جس پر انہوں نے کہا تھا کہ میں کبھی پارٹی چھوڑنا نہیں چاہتا تھا لیکن اب پارٹی میں رہنا مشکل ہے۔
بعدازاں چوہدری نثار نے 2018 میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیا تھا اور پنجاب اسمبلی کی نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے تاہم انہوں نے اب تک رکنیت کا حلف نہیں اٹھایا۔
یہاں یہ بات مدِ نظر رہے کہ اپریل کے اوائل میں وفاقی کابینہ نے الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم کی منظوری دی تھی جس کے نتیجے میں سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار اور سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی بالترتیب سینیٹ اور پنجاب اسمبلی سے رکنیت منسوخ ہوسکتی ہے۔