اسلام آباد: (سچ خبریں) سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا نے پاکستان تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان مذاکرات کی امید ظاہرکردی جبکہ فیض حمید کے خلاف چارج شیٹ کو فوج کا اندرونی معاملہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ جانیں اوران کا نظام جانے، عمران خان ملٹری کورٹ میں نہیں جائیں گے۔
ڈان نیوز کے مطابق پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے صاحبزادہ حامد رضا نے کہا کہ پی ٹی آئی کی 5 رکنی کمیٹی کے پاس مذاکرات کا مینڈیٹ ہے، جو بھی ہمارے ساتھ مزاکرات کرنا چاہے وہ رابطہ کرسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جہاں تک مذاکرات کے حوالے سے پیش رفت کی بات ہے تو امید ہے آج اجلاس ہوگا، حکومت پہلے بھی کوئی قابل عمل چیز لے کر آتی تو ہم اس پر بات کرنے کو تیار تھے، اب بھی تیار ہیں۔
اس سوال پر کہ حکومت کی جانب سے کوئی رابطہ کیا گیا ہے ؟ سربراہ سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ کچھ چیزیں امانت ہوتی ہیں، اس کا جواب عمر ایوب خان دیں گے، انہوں نے کہا کہ پارلیمان کے اندر تمام پارلیمانی پارٹیوں سے رابطہ ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ خون ناحق بولتا ہے یہ قدرت کا قانون ہے، کل وزیر دفاع کی تقریر میں الفاظ ان کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔
انہوں نے کہاکہ فیض حمید کے خلاف چارج شیٹ فوج جانے ان کا اندرونی نظام جانے، عمران خان ملٹری کورٹ میں نہیں جائیں گے۔
صاحبزادہ حامد رضا نے پیسوں اور رشوت کی سیاست کی بنیاد ڈالنے والوں کے خلاف کارروائی کامطالبہ کردیا، انہوں نے سول نافرمانی تحریک کی سوچ سے بڑھ کرکامیابی کادعویٰ کردیا۔
دریں اثنا، اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے پارلیمنٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ خواجہ آصف کے پاس ذاتی حملوں کے علاوہ کوئی بات نہیں ہوتی، حکومت نے گولی چلانے کے سوال پر کوئی جواب نہیں دیا، ہمارے شہدا کا خون شہباز شریف پر ہے اور وہی سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ دار ہیں۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ بانی پی ٹی آئی ، شاہ محمود قریشی اور دیگر رہنماؤں کو رہا کیا جائے جبکہ 9 مئی اور 24 نومبر کے حوالے سے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔
عمر ایوب نے دعویٰ کیا کہ ہمارے 12 کارکن جاں بحق ہوئے جبکہ 200 سے زائد لاپتہ ہیں، نیٹو فورسز کی جانب سے دیے گئے ہتھیار ڈی چوک پر استعمال ہوئے، ہمارے پی ٹی آئی کارکنان کے پاس کھانا پانی سب موجود تھا، شیلنگ اور فائرنگ کے دوران کھانا دینا ممکن نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ بشریٰ بی بی ، علی امین گنڈا پور اور مجھ سمیت سب پر کئی بار جان لیوا حملے ہوئے، ہم لوگ ڈی چوک خالی ہونے کے بعد یہاں سے نکلے تھے۔