لاہور(سچ خبریں) سپریم کورٹ لاہور رجسٹری نے سزائے موت کے منتظر ذہنی بیمار 2 قیدیوں امداد علی اور کنیزاں بی بی کی سزا کے بارے میں اہم فیصلہ کرتے ہوئے ان کی سزاے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا اور مجرمان کو پنجاب کے ذہنی امراض کے ہسپتال منتقل کرنے کا حکم دے دیا۔
اس کے علاوہ عدالت نے تیسرے مجرم غلام عباس کی سزائے موت کے خلاف اپیل صدر مملکت کو دوبارہ ارسال کرنے کا حکم دیا اور توقع ظاہر کی کہ صدر مملکت سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں رحم کی اپیل پر فیصلہ کریں گے۔
جسٹس منظور ملک کے تحریر کردہ فیصلے میں کہا گیا کہ کسی بھی شخص کی جسمانی صحت کی طرح ذہنی صحت بھی انتہائی اہم ہے، بد قسمتی سے اسے وہ توجہ یا اہمیت نہیں دی جاتی جو ملنی چاہیے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ چند غلط فہمیوں کی وجہ سے ذہنی امراض کے اثرات کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور اس سے جنم لینے والی کو کمزوری اور معذوری کو مناسب توجہ نہیں دی جاتی۔
سپریم کورٹ نے وفاقی و صوبائی حکومتوں کو فیصلے کی روشنی میں قوانین میں اور جیل رولز میں بھی ذہنی مریض قیدیوں سے متعلق ترامیم کرنے کا حکم دیا۔
عدالت نے حکم دیا کہ وفاق اور صوبے ذہنی مریض قیدیوں کے لیے بہترین فارینزک ہیلتھ سہولیات شروع کریں اورسزائے موت کے قیدیوں کی ذہنی کیفیت جانچنے کے لیے ماہر نفسیات پر مشتمل بورڈ بنایا جائے جو ذہنی مریض قیدیوں کو سزائے موت نہ دینے کی وجوہات کا تعین کرے گا۔
علاوہ ازیں عدالت نے وفاق اور صوبوں کو ذہنی امراض میں مبتلا زیر ٹرائل ملزمان کی جانچ کے لیے بھی میڈیکل بورڈز بنانے اور جیل حکام، سماجی کارکنان، پولیس اور ماہر نفسیات کے تربیتی پروگرام شروع کرنے بھی حکم دیا۔
سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ صوبائی اور وفاقی جوڈیشل اکیڈمیز میں ججز، وکلا، پروسیکیوٹرز کے لیے تربیتی پروگرامز شروع کیے جائیں۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ عدالت عظمیٰ سے اس کے لارجر بینچ کے ذریعے ذہنی امراض میں مبتلا مجرمان اور ملزمان کے مقدمات میں سزا پر عملدرامد، مقدمات کا سامنا کرنے کی اہلیت اور مجرمیت سے متعلق سوالات کا تعین کرنے کے لیے رجوع کیا گیا تھا۔
یہ تعین اس حوالے سے ہونے والے حالیہ قانونی، طبی اور اصولوں میں ہوئی پیش رفت کے تناظر میں بھی یہ تعین کرنا ضروری تھا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس منظور ملک کی سربراہی میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم خان میانخیل اور جسٹس منظور علی شاہ پر مشتمل سپریم کورٹ لاہور رجسٹری کے 5 رکنی بینچ نے اس کیس کی سماعت کی تھی۔بینچ نے پھانسی کے منتظر ذہنی بیمار قیدیوں سے متعلق 3 اپیلوں پر 7 جنوری 2021 کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
مذکورہ اپیلیں کنیزاں بی بی، امداد علی اور غلام عباس کی جانب سے دائر کی گئی تھیں جو ذہنی امراض کی واضح علامتوں کے ساتھ بالترتیب 30، 18 اور 14 سالوں سے سزائے موت کے منتظر ہیں۔ا
مداد علی کو سال 2002، کنیزاں بی بی کو 1991 اور غلام عباس کو سال 2006 میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔کمالیہ کی کنیزاں بی بی کو 6 افراد کے قتل کے الزام میں جبکہ وہاڑی کے امداد علی پر بوریوالہ میں حافظ عبداللہ کو قتل کرنے پر سزا ہوئی تھی۔
گزشتہ سماعت میں وفاقی حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل اور تمام صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز نے عدالت کو بتایا تھا کہ ذہنی بیمار فرد کو سزائے موت اور پھانسی نہیں دینی چاہیے۔
اس کیس میں پروفیسر ڈاکٹر موادات حسین رانا اور ایڈووکیٹ حیدر رسول مرزا نے اپنی قانونی اور طبی مہارت کے ساتھ عدالت کی معاونت کی تھی۔
ان دونوں نے کی رائے یہی تھی کہ ذہنی بیمار افراد کو پھانسی کے بجائے کسی نفسیاتی علاج کے ہسپتال منتقل کیا جائے جہاں ان کا نفسیاتی بیماریوں کی ادویات سے علاج کیا جاسکے۔
اس کے علاوہ انہوں نے صوبائی سطح پر اس قسم کے قیدیوں کی بحالی کے لیے فارنزیک میڈیکل سہولت گاہیں بنانے کی بھی سفارش کی تھی۔