سیالکوٹ(سچ خبریں) سیالکوٹ میں سری لنکن جنرل مینیجر کو قتل کرنے اور اس کی لاش کو نذرِ آتش کرنے پر سیالکوٹ پولیس نے اب تک235 افراد کو گرفتار کرلیا ہے اور 900 سے زائد افراد پر مقدمہ درج کیا گیاہے، مقامی تاجروں نے مسٹر کمارا کی تصاویر لٹکائیں اور اس پر پھول چڑھائے۔
ذرائع کے مطابق سیالکوٹ پولیس اب تک 235 افراد کو گرفتار کرچکی ہے جنہوں نے پریانتھا کمارا پر تشدد کیا اور ویڈیوز ریکارڈ کیں۔خیال رہے کہ فیکٹری ورکرز سمیت سیکڑوں افراد نے جمعہ کے روز پریانتھا کمارا پر توہین مذہب کا الزام عائد کر کے احتجاج کیا اور انہیں تشدد کر کے قتل کرنے کے بعد لاش کو آگ لگادی تھی۔
اگوکی پولیس تھانے کے اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) ارمغان مقط کی درخواست پر راجکو انڈسٹریز کے 900 ورکرز کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302، 297، 201، 427، 431، 157، 149 اور انسداد دہشت گردی قانون کے 7 اور 11 ڈبلیو ڈبلیو کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
درخواست گزار نے کہا کہ مظاہرین نے ان کی موجودگی میں پریانتھا کو تھپڑ، ٹھوکریں اور مکے مارے اور لاٹھیوں سے تشدد کیا اور وزیرآباد فیکٹری سے گھسیٹ کر باہر لائے جہاں ان کی موت ہوگئی اور اس کے بعد ان کی لاش کو آگ لگادی۔ایس ایچ او کا کہنا تھا کہ اہلکاروں کی کمی کے باعث وہ مشتعل ہجوم کے آگے بے بس تھا۔
دوسری جانب سیالکوٹ پولیس 900 ملزمان کی گرفتاری کے لیے شہر، اطراف کے گاؤں کے علاوہ سمبڑیال، ڈسکہ ور پسرور میں چھاپے ماررہی ہے۔گرفتار ہونے والے 230 ملزمان میں دو مرکزی ملزمان محمد طلحہ اور فرحان ادریس شامل ہیں، تمام کو نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔راجکو انڈسٹریز ہفتے کے روز بند رہی، اور اس کے کارکن گرفتاری سے بچنے کے لیے مفرور ہیں۔
پریانتھا کمارا کا پوسٹ مارٹم علامہ اقبال ٹیچنگ ہسپتال سیالکوٹ میں مکمل کیا گیا ہسپتال ذرئع کا کہنا تھا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق ان کے جسم کا بیشتر حصہ جھلس گیا تھا اور تشدد کی وجہ سے کئی ہڈیاں ٹوٹ گئی تھیں۔سیالکوٹ کے ڈپٹی کمشنر طاہر فاروق نے بتایا کہ پریانتھا کمارا کی لاش کو سخت حفاظتی انتظامات کے ساتھ ریسکیو 1122 کی ایمبولینس میں لاہور کے ہسپتال منتقل کردیا گیا، جسے رسمی کارروائیاں مکمل کر کے کولمبو بھیجا جائے گا۔
سیالکوٹ سے مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے خواجہ آصف نے ہفتہ کو گارمنٹس فیکٹری کا دورہ کیا اور واقعہ کی تفصیلات دریافت کیں اور پریانتھا کمارا قتل پر افسوس کا اظہار کیا۔سیالکوٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے باہر مقامی تاجروں نے مسٹر کمارا کی تصاویر بھی لٹکائیں اور اس پر پھول چڑھائے۔
نامعلوم پولیس ذرائع کے حوالے سے جیو ٹی وی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ کہ فیکٹری کے کچھ کارکن متوفی جنرل مینیجر جو کہ ٹیکسٹائل انجینئر تھے، کو نظم و ضبط کے نفاذ میں سختی سکی وجہ سے ناپسند کرتے تھے۔جمعہ کی صبح معمول کے معائنے کے بعد پریانتھا کمارا نے ناقص کام پر سینیٹری عملہ کی سرزنش کی تھی۔