لاہور:(سچ خبریں) لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس فاروق حیدر کی سماعت سے معذرت کے بعد چوہدری پرویز الہٰی کو وزیر اعلیٰ کے عہدے سے ہٹانے کے خلاف درخواست پر سماعت کرنے والا لارجر بینچ تحلیل ہوگیا۔
چوہدری پرویز الہٰی نے کچھ دیر قبل ہی خود کو گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن کی جانب سے وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدے سے ڈی نوٹی فائی کرنے کا اقدام لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا، جس پر سماعت کے لیے جسٹس فاروق حیدر اور جسٹس عابد عزیز شیخ پر مشتمل 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔ تاہم جسٹس فاروق حیدر نے درخواست پر سماعت سے معذرت کرلی جس کے بعد لارجر بینچ تحلیل ہوگیا۔
جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ جسٹس فاروق حیدر درخواست گزار کے وکیل رہ چکے ہیں جبکہ ہم نے کیس کی فائل نئے بینچ کے لیے چیف جسٹس امیر بھٹی کو بھجوا دی ہے۔
اس موقع پر وکیل پرویز الہٰی نے کہا کہ ہماری استدعا ہے کیس کو آج ہی سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔
اس پر جسٹس عابد عزیز شیخ کا کہنا تھا کہ ہم آپ کی یہ استدعا بھی چیف جسٹس کو بھجوا دیتے ہیں۔
قبل ازیں چوہدری پرویز الہٰی نے گورنر پنجاب کی جانب سے خود کو وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدے سے ڈی نوٹی فائی کرنے کا اقدام لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ اسپیکر کے اجلاس نہ بلانے پر وزیر اعلیٰ اور کابینہ کو ڈی نوٹیفائی کرنا غیر آئینی ہے۔
درخواست میں گورنر کو بذریعہ پرنسپل سیکریٹری اور چیف سیکریٹری فریق بنایا گیا ہے، درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ اسپیکر کو وزیر اعلیٰ کے اعتماد کے ووٹ کے لیے اجلاس بلانے کا کہا تھا، اسمبلی کا اجلاس پہلے سے چل رہا ہے، اس لیے اسپیکر نے نیا اجلاس نہیں بلایا۔
درخواست میں کہا گیا کہ اسپیکر کے اجلاس نہ بلانے پر وزیر اعلیٰ اور کابینہ کو ڈی نوٹیفائی کرنا غیر آئینی ہے، اسپیکر کے کسی اقدام پر وزیر اعلیٰ کے خلاف کارروائی نہیں ہو سکتی۔
درخواست میں عدالت عالیہ سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ عدالت گورنر کا نوٹی فکیشن کالعدم قرار دے۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز رات گئے گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے اعتماد کا ووٹ لینے میں ناکامی پر وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الہیٰ کو عہدے سے ڈی نوٹیفائی کردیا تھا، گورنر نے رات گئے وزیر اعلیٰ پنجاب کو ان کے عہدے سے ہٹانے کا آرڈر اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے جاری کیا تھا۔
گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے ڈی نوٹیفائی کرنے کے اپنے آرڈر میں کہا تھا کہ انہوں نے 19 دسمبر کو وزیر اعلیٰ پرویز الہٰی کو اعتماد کا ووٹ لینے کی ہدایت کی تھی۔
جاری حکم نامے کے مطابق ’21 دسمبر سہ پہر چار بجے وزیراعلیٰ پنجاب کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا گیا، مگر 48 گھنٹے گزرنے کے باوجود انہوں نے اعتماد کا ووٹ نہیں لیا، لٰہذا آئین کے آرٹیکل 30 کے مطابق صوبائی کابینہ کو ختم کیا جاتا ہے۔‘
گورنر پنجاب کے جاری حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ ’سابق وزیراعلٰی پرویز الٰہی نئے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب تک اپنا کام جاری رکھیں۔‘
حکم نامے کی ایک نقل چیف سیکریٹری پنجاب کو بھی بھیجی گئی جس میں اس پر عمل درآمد کے لیے فوری اقدامات کی ہدایت کی گئی۔
عمران خان کی جانب سے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کرنے کے اعلان کے بعد وفاق میں حکمران اتحاد کے رہنما پنجاب کے وزیراعلیٰ پرویز الہٰی کو پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے سے روکنے کے لیے حرکت میں آگئے تھے۔
20 دسمبر کو پنجاب میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی اور اسٌپیکر سبطین خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی گئی تھی جب کہ ایک روز بعد گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے وزیراعلیٰ پرویز الہٰی سے 21 دسمبر کو اعتماد کا ووٹ بھی طلب کرلیا تھا۔
بعد ازاں اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان نے اپنے خلاف جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتماد کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیتے ہوئے رولنگ جاری کی تھی اور کہا تھا کہ گورنر پنجاب کی جانب سے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہنا غیر قانونی سمجھتا ہوں، ہم نے پنجاب اسمبلی کا اجلاس ختم نہیں کیا تھا بلکہ اسے ملتوی کیا تھا، پنجاب اسمبلی کے جاری اجلاس میں گورنر پنجاب اعتماد کا ووٹ لینے کا نہیں کہہ سکتے۔
گورنر پنجاب نے صوبائی اسمبلی کے اسپیکر سبطین خان کی جانب سے وزیراعلیٰ پرویز الہٰی کو اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے سے متعلق دی گئی رولنگ کو ’غیر آئینی‘ اور ’غیر قانونی‘ قرار قرار دیا۔
وزیر اعلیٰ کو جاری کیے گئے گورنر کے احکامات پر قانونی ماہرین کی آرا مختلف اور منقسم نظر آئیں، تاہم وہ اس بات پر متفق تھے کہ پنجاب کے موجودہ بحران کے حل کے لیے قانونی جنگ ہی واحد راستہ دکھائی دیتی ہے۔