اسلام آباد:(سچ خبریں) اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں تقریباً دوگنا اضافے کے بعد 14 جولائی کو ختم ہونے والے ہفتے کو 4.2 ارب ڈالر سے بڑھ کر 8.7 ارب ڈالر اور مجموعی طور پر پاکستان کے ذخائر 14.07 ارب ڈالر ہوگئے۔
اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری اعداد وشمار کے مطابق 7 جولائی کو ختم ہونے والے ہفتے کو مرکزی بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر 4 ارب 52 کروڑ 40 لاکھ ڈالر تھے جو بڑھ کر 8 ارب 72 کروڑ 72 لاکھ ڈالر ہوگئے ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ مجموعی طور پر پاکستان کے ذخائر 7 جولائی کو 9 ارب 83 کروڑ 85 لاکھ ڈالر تھے، جس میں کمرشل بینکوں کے 5 ارب 31 کروڑ 45 لاکھ ڈالر شامل تھے۔
اسٹیٹ بینک نے بتایا کہ 14 جولائی کو ختم ہونے والے ہفتے کو پاکستان کے مجموعی ذخائر بڑھ کر 14 ارب 6 کروڑ 53 لاکھ ڈالر ہوگئے ہیں اور اس میں کمرشل بینکوں کا حصہ 5 ارب 33 کروڑ 81 لاکھ ڈالر ہے۔
صحافیوں کو تشویش ہے کہ اس سے طاقتور حلقوں کو تبصرے کو روک کر ان کوششوں کو سبوتاژ کرنے کا موقع ملے گا، کیونکہ نئے قانون کے تحت یک طرفہ اسٹوریز کو ’مس انفارمیشن ’سمجھا جا سکتا ہے۔
حکومت نے ان اصطلاحات کے لیے نئی تعریفیں بنانے کی بھی کوشش کی ہے، کیونکہ یہ بین الاقوامی سطح پر استعمال ہونے والی اصطلاحات سے مطابقت نہیں رکھتیں۔
دوسری جانب 2018 میں شائع ہونے والے یونیسکو کے رہنما خطوط یہ تعریف پیش کرتے ہیں کہ ’مس انفارمیشن وہ غلط معلومات ہیں جو کسی شخص، سماجی گروپ، تنظیم یا ملک کو نقصان پہنچانے کے لیے غلط اور جان بوجھ کر بنائی گئی ہوں‘۔
سینٹر فار پروٹیکشن آف جرنلسٹس (سی پی جے) کے مطابق ’مس انفارمیشن کسی شخص یا تنظیم کو بدنام کرنے کے لیے جان بوجھ کر غلط یا جھوٹی معلومات پھیلانا ہے۔‘
پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ نے کہا کہ حکام معلومات کی آزادی کے حوالے سے کوئی غلط فہمی پیدا نہ کریں اور ایسے قوانین کا غلط استعمال نہیں ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ پی ایف یو جے کا مطالبہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کے ملازمین کے لیے ایک مکمل سروس اسٹرکچر ہو نہ کہ صرف تنخواہوں کی بروقت ادائیگی کو یقینی بنایا جائے۔
افضل بٹ نے یہ بھی کہا کہ پیمرا میں براڈکاسٹرز اور پی ایف یو جے دونوں کو ووٹنگ کے حقوق ہونے چاہئیں تاکہ کارکنوں اور سرمایہ کاروں کے مفادات کا تحفظ ہو۔
پیمرا ترمیمی ایکٹ 2022 پر غور کے لیے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات کا اجلاس آج طلب کر لیا گیا ہے۔
مرکزی بینک کے ذخائر میں دوگنا اضافہ سعودی عرب سے 2 ارب ڈالر، متحدہ عرب امارات سے ایک ارب ڈالر اور عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) سے 3 ارب ڈالر کی پہلی قسط کے تحت حاصل ہونے والے 1.2 ارب ڈالر کے ایک ہفتے بعد ہوگیا ہے۔
ان اعداد وشمار میں چین کے بینک کی جانب سے رول اوور ہونے والے 60 کروڑ ڈالر شامل نہیں ہیں، جس کا اعلان وزیراعظم شہباز شریف نے کیا تھا، جس سے اسٹیٹ بینک کے ذخائر میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔
خیال رہے کہ اسٹیٹ بینک کے ذخائر 2022 کے اوائل میں گرنا شروع ہوگئے تھے جو 7 جنوری کو 17.6 ارب ڈالر تھے لیکن اسی برس دسمبر میں گر کر صرف 5.6 ارب ڈالر رہ گئے تھے۔
اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا سلسلہ نئے سال میں بھی جاری رہا اور 3 فروری کو کم ترین سطح 2.9 ارب ڈالر تک پہنچ گئے، اس سے قبل فروری 2014 میں زرمبادلہ کے ذخائر 2.84 ارب ڈالر کی خطرناک حد تک گر گئے تھے۔
پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ رواں ماہ آئی ایم ایف کی جانب سے مختصرمدت کے لیے 3 ارب ڈالر کی منظوری کے بعد شروع ہوا اور دیگر ذرائع سے بھی ڈالرز آنے لگے اور دوست ممالک نے اس حوالے سے اہم کردار ادا کیا۔