اسلام آباد: (سچ خبریں) سیکریٹری خارجہ سائرس قاضی نے مصنوعی ذہانت اور سائبر اسپیس کے ذمہ دارانہ استعمال کی ضمانت کے لیے ایک ’بائنڈنگ‘ عالمی فریم ورک پر زور دیتے ہوئے ترقی پذیر ممالک کی ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز تک رسائی پر غیر منصفانہ پابندیوں کے خلاف خبردار کردیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اسلام آباد میں منعقد ایک ورک شاپ کے اختتامی سیشن کے دوران خطاب کرتے ہوئے سیکریٹری خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان سائبر اسپیس اور مصنوعی ذہانت ٹیکنالوجیز کے ذمہ دارانہ استعمال کی ضمانت کے لیے ایک عالمی فریم ورک قائم کرنے کے لیے بین الاقوامی تعاون کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔
پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ اس تقریب کی میزبانی مشترکہ طور پر جنیوا میں قائم اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تخفیف اسلحہ کی تحقیق ( یو این آئی ڈی آئی آر) کے تعاون سے سینٹر فار انٹرنیشنل اسٹریٹجک اسٹڈیز ( سی آئی ایس ایس) نے کی۔
ورکشاپ نے عالمی سلامتی کے تناظر میں مصنوعی ذہانت اور سائبر اسپیس کی ہم آہنگی، ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کے حفاظتی اثرات کو تلاش کرنے پر توجہ مرکوز کی۔
سائرس قاضی نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان ’قواعد پر مبنی بین الاقوامی احکامات‘ پر بھروسہ رکھتا ہے، جو شفافیت، احتساب اور اہم سویلین انفرااسٹرکچر کے تحفظ کو فروغ دیتے ہیں۔
انہوں نے وضاحت کی کہ مصنوعی ذہانت پر پاکستان کی پوزیشن ’ٹیکنالوجی کی دوہری نوعیت کی پہچان، ذمہ دارانہ طرز حکمرانی کے لیے بین الاقوامی تعاون کے عزم، عالمی مباحثوں میں فعال شرکت، پالیسی سازی کے لیے ایک جامع نقطہ نظر، اور تمام ریاستوں بالخصوص ترقی پذیر ممالک کی مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجیز تک مساوی رسائی‘ ہے۔
سیکریٹری خارجہ نے کہا کہ پاکستان ان ٹیکنالوجیز کی دوہری نوعیت کو تسلیم کرتا ہے۔
سائرس قاضی کا کہنا تھا کہ مصنوعی ذہانت کا غیر منظم فوجی استعمال عالمی اور علاقائی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث ہے اور انہوں نے ان مسائل سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے مضبوط عزائم کا اعادہ کیا۔
سیکریٹری خارجہ کے مطابق پاکستان تمام ممالک کے لیے نئی اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز تک منصفانہ، غیر مشروط اور مساوی رسائی کی بھرپور حمایت کرتا ہے اور انہوں نے ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز پر غیر ضروری پابندیوں کے خلاف بھی آواز اٹھائی۔
سائرس قاضی نے بتایا کہ حکومت ایک جامع نقطہ نظر کی بھی وکالت کر رہی ہے جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول حکومتیں، نجی ادارے، جامعات اور سول سوسائٹیز شامل ہوں تاکہ محفوظ، مستحکم اور کھلے سائبر اسپیس کے لیے مشترکہ حکمت عملی تیار کی جاسکے۔
ان کے مطابق خاص طور پر سیکیورٹی کے نام اس قسم کی پابندیاں سائنس اور ٹیکنالوجی کے دائرے میں ملکوں کی ترقی میں رکاوٹیں پیدا کرسکتی ہیں, جس سے ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک کے درمیان امتیاز کی ایک نئی سطح کے قائم ہونے کا خطرہ ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تخفیف اسلحہ کی تحقیق کے سینئر محقق ڈونگ یون چو کا کہنا تھا کہ حالیہ تمام ترقیوں کا بنیادی محرک مصنوعی ذہانت ہے مگر اس سے کئی اخلاقی مسائل بھی پیدا ہوگئے ہیں۔
ڈونگ یون چو نے کہا کہ یہ اخلاقی اور انسانی مسائل پیدا کر سکتا ہے کیونکہ یہ نامکمل، غیر معیاری یا غلط ہو سکتا ہے۔
سینٹر فار انٹرنیشنل اسٹریٹجک اسٹڈیز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سفیر علی سرور نقوی کا کہنا تھا کہ تکنیکی ترقی زندگی کے تمام پہلوؤں پر گہرا اثر ڈالتی ہے اور سیکیورٹی کے بارے میں ہماری سمجھ کو تشکیل دے رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ ٹیکنالوجی میں ان نئے فرنٹیئرز کی طرف سے پیش کردہ چیلنجوں کو سمجھنے کی اہمیت کو واضح کرتا ہے
انہوں نے ان تکنیکی تبدیلیوں سے درپیش چیلنجوں کو نیویگیٹ کرنے کے لیے ’ایک فعال اور باخبر ردعمل‘ کا مطالبہ کیا۔