اسلام آباد: (سچ خبریں) پاکستان نے امریکا پر زور دیا ہے کہ فوجی امداد اور فروخت جو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں معطل کردی گئی تھی اسے بحال کیا جائے کہ جب ایک سینیئر امریکی عہدیدار کی جانب سے کلیدی تزویراتی خطے میں اس دو طرفہ تعلقات کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا۔
میڈیارپورٹس کے مطابق واشنگٹن میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے امریکا میں پاکستان کے سفیر مسعود خان نے کہا کہ ’یہ ضروری ہے کہ امریکا، پاکستان کے لیے سابقہ انتظامیہ کی جانب سے معطل شدہ غیر ملکی فوجی مالی اعانت اور غیر ملکی عسکری فروخت کو بحال کرے۔
البتہ امریکی پرنسپل نائب معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیا، الزبتھ ہورسٹ نے زبوں حال پاکستانی معیشت کی تعمیر نو میں مدد کی ضرورت پر توجہ مرکوز کی اور اسلام آباد پر زور دیا کہ وہ ایسا کرنے کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ مل کر کام کرے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور آئی ایم ایف نے جن اصلاحات پر اتفاق کیا وہ آسان نہیں ہیں لیکن یہ بہت ضروری ہے کہ پاکستان یہ اقدامات کرے تاکہ ملک کو مضبوط مالیاتی بنیادوں پر واپس لایا جا سکے، مزید قرضوں میں پھنسنے سے بچایا اور پاکستان کی معیشت کو ترقی دی جا سکے۔
افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد سے پاکستان اور امریکا کے تعلقات ایک طویل عرصے سے غیر یقینی صورتحال میں گِھرے ہوئے ہیں۔
چین کے ساتھ امریکی مقابلے میں شدت اور ملک کی بگڑتی ہوئی معیشت نے پاکستان کے امریکا کے ساتھ تعلقات کو مزید کشیدہ کر دیا ہے۔
تاہم حال ہی میں تجارت، توانائی، تعلیم، صحت اور دفاع پر مرکوز اعلیٰ سطح کے سفارتی رابطوں اور بات چیت میں اضافہ ہوا ہے۔
ولسن سینٹر واشنگٹن میں منعقدہ کانفرنس میں اس بات پر توجہ مرکوز کی گئی کہ متعدد چیلنجنگ پیش رفتوں کے پس منظر میں امریکا اور پاکستان کے تعلقات کو کس طرح تعمیر کیا جا سکتا ہے۔
سفیر مسعود خان نے نہ صرف امریکا اور پاکستان کے درمیان قریبی تعلقات کو از سرِ نو بحال کرنے کی ضرورت پر زور دیا بلکہ اس بات پر بھی زور دیا کہ واشنگٹن، بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے میں کیا کردار ادا کر سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم بھارت اور پاکستان کے رابطے کے لیے امریکی حوصلہ افزائی کی قدر کرتے ہیں لیکن اس سے آگے امریکا جموں و کشمیر کے تنازع کو حل کرنے میں مدد کے لیے ایک اثر انگیز کے طور پر کام کر سکتا ہے جس نے خطے کو جنگ کے دہانے پر کھڑا کر رکھا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں مسعود خان نے کہا کہ پاکستان نے امریکی حکومت کی مشاورت سے روسی تیل کا پہلا آرڈر دیا۔
انہوں نے افغانستان میں استحکام لانے میں پاکستان کے کردار کے بارے میں بھی بات کی۔
انہوں نے کہا کہ ’افغانستان کا استحکام ضروری ہے، سب سے پہلے اس کے اپنے لوگوں کے لیے جنہوں نے گزشتہ چار دہائیوں کے دوران شدید نقصان اٹھایا ہے۔‘
اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ امریکا اور چین دونوں ہی افغانستان میں دہشت گردی کی افزائش پر فکر مند ہیں پاکستانی سفیر کا کہنا تھاکہ ’آئیے اس خطرے کو ختم کرنے کے لیے مل کر کام کریں، آج یہ پاکستان اور افغانستان کے لیے خطرہ ہے، اگر نظر نہ رکھی گئی تو یہ خطے کے دوسرے حصوں اور اس سے باہر پھیل جائے گا‘۔
امریکی عہدیدار الزبتھ ہورسٹ نے بھی یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ امریکا اور پاکستان دونوں ’ایک ایسا خطہ چاہتے ہیں جہاں دہشت گردوں کا کوئی خطرہ نہ ہو اور سرحدوں کا احترام کیا جائے، اس مسئلے پر بات کی‘۔
چیلنجوں سے آگے دیکھنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے الزبتھ ہورسٹ نے دونوں ممالک پر زور دیا کہ وہ معیشت، تجارت، سرمایہ کاری، علاقائی استحکام اور خاص طور پر ماحولیاتی اور صحت جیسے عالمی چیلنجوں پر مل کر کام کریں۔
تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ ’اس وقت ہر ایک کے ذہن میں پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال سے متعلق سوال ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ امریکا پاکستان کے موجودہ اقتصادی راستے کی پائیداری کے بارے میں خدشات کا اظہار کرتا ہے اور تکنیکی رابطوں اور مدد کے ذریعے پاکستان کی حمایت جاری رکھے گا، خاص طور پر جب پاکستان کو ایسی پالیسیاں بنانے کی ترغیب دینے کی بات ہو جو کھلے اور منصفانہ، شفاف کاروباری ماحول کو فروغ دیں’۔