اسلام آباد:(سچ خبریں) وفاقی حکومت نے ایک بار پھر متحدہ قومی موومنٹ-پاکستان (ایم کیو ایم-پی) کو یقین دہانی کروادی ہے کہ مردم شماری کے حوالے سے اس کے تمام تحفظات دور کردیے جائیں گے۔
یہ یقین دہانی ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب یہ اطلاعات زیرگردش تھیں کہ ایم کیو ایم مردم شماری کے نتائج پر تحفظات کے پیش نظر وفاقی حکومت سے علیحدگی پر غور کررہی ہے۔
ایم کیو ایم کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ روز حکومتی وفد سے ملاقات میں ایم کیو ایم نے جاری ڈیجیٹل مردم شماری پر شدید تحفظات کا اظہار کیا اور مطالبہ کیا کہ اعداد و شمار درست کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے’۔
ایم کیو ایم سے ملاقات کرنے والے حکومتی وفد میں وفاقی وزیر خواجہ آصف، احسن اقبال اور سعد رفیق شامل تھے، علاوہ ازیں وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری توقیر شاہ اور چیف مردم شماری کمشنر ندیم ظفر بھی ملاقات میں موجود تھے۔
ایم کیو ایم کی نمائندگی پارٹی کے کنوینر خالد مقبول صدیقی، سید امین الحق، مصطفیٰ کمال، فاروق ستار اور حنیف جاوید سمیت دیگر رہنماؤں نے کی۔
بعد ازاں پارٹی کے سینیئر ڈپٹی کنوینر مصطفیٰ کمال نے ایک نیوز چینل سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’مردم شماری کے معاملے پر حکومت اور ایم کیو ایم کے درمیان یہ 11ویں میٹنگ تھی، کراچی کی آبادی 3 کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے لیکن موجودہ مردم شماری میں اسے ایک کروڑ 60 لاکھ شمار کیا گیا۔
ایم کیو ایم کی پریس ریلیز میں کہا گیا کہ حکومتی وفد کے ساتھ اجلاس کے دوران مردم شماری کے اب تک جاری کردہ اعدادوشمار پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا۔
اجلاس میں پارٹی رہنماؤں نے ڈیجیٹل مردم شماری میں ادارہ شماریات کی مبینہ بے ضابطگیوں پر بھی تبادلہ خیال کیا اور مطالبہ کیا کہ وفاقی حکومت اپنے وعدے پورے کرے اور حکام کو آبادی کی درست گنتی کی ہدایت کرے۔
علاوہ ازیں ایم کیو ایم نے مردم شماری کے اب تک جاری کیے گئے اعدادوشمار کو درست کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دینے کا بھی مطالبہ کیا۔
واضح رہے کہ ایک روز قبل پارٹی ذرائع نے بتایا تھا کہ ’ایم کیو ایم نے حکومتی وفد کے سامنے مردم شماری کا معاملہ اٹھانے سے قبل اپنے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کے استعفے جمع کر لیے ہیں‘۔
25 اپریل کو ہونے والے پارٹی اجلاس میں ایم کیو ایم نے مردم شماری پر تحفظات اور افسوس کا اظہار کیا تھا کہ وفاقی حکومت پارٹی کی شکایات کو دور کرنے میں سنجیدہ نظر نہیں آرہی۔
ایم کیو ایم نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ اس نے اپنے اجلاس میں فیصلہ کیا ہے کہ وزیر اعظم سے ملاقات سے قبل پارٹی کے مؤقف کو تقویت دینے کے لیے پارٹی کے ساتوں ارکان قومی اسمبلی اور 21 ارکان صوبائی اسمبلی سے استعفے لے لیے جائیں گے۔
یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا جب وفاقی حکومت نے ڈیجیٹل مردم شماری کی آخری تاریخ میں مزید 5 روز کے لیے توسیع کردی، جوکہ 25 اپریل کو ختم ہونے والی تھی، یہ فیصلہ ادارہ شماریات (پی بی ایس) کی فیلڈ ٹیموں کی جانب سے 12 بڑے شہری علاقوں میں منفی نمو دیکھنے اور 11 بڑے شہروں میں ڈیٹا کی تصدیق کی ضرورت کے پیش نظر کیا گیا۔
ادارہ شماریات نے کہا کہ جن علاقوں میں مردم شماری کی آخری تاریخ میں توسیع کی گئی ہے ان میں کوئٹہ، لاہور، راولپنڈی، کراچی سینٹرل، کراچی ساؤتھ، کراچی ویسٹ، کراچی ایسٹ، ملیر، کیماڑی، کورنگی، حیدرآباد اور اسلام آباد شامل ہیں۔
تاہم ادارہ شماریات کا یہ اعلان بھی ایم کیو ایم کو ڈیجیٹل مردم شماری پر پارٹی مؤقف پر نظرثانی کرنے کے لیے راضی نہ کرسکا۔
ایک بیان میں مصطفیٰ کمال نے کہا تھا کہ اجلاس میں ادارہ شماریات کی جانب سے جاری مردم شماری اور اب تک کے اعدادوشمار میں خامیوں سمیت اس مشق کے تمام پہلوؤں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
انہوں نے کہا تھا کہ جن ارکان قومی اسمبلی نے اپنے استعفے پارٹی کنوینر کو جمع کرائے ہیں انہوں نے طے کیا ہے کہ وہ اس وقت تک اسمبلی نہیں جائیں گے جب تک ان کی شکایات کا ازالہ نہیں کیا جاتا۔
مصطفیٰ کمال نے کہا تھا کہ پارٹی اجلاس میں وزیر اعظم اور وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی کے کردار کو سراہا گیا جنہوں نے نہ صرف ان کے تمام تحفظات سنے بلکہ انہیں دور کرنے کی ہدایات بھی جاری کیں۔
انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان مرکز میں حکمران اتحاد کا حصہ ہے اور مشکل وقت میں حکومت کے ساتھ رہے گی۔