اسلام آباد (سچ خبریں) تفصیلات کے مطابق میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغان سفیر کی بیٹی اغواء نہیں ہوئی ، ہمارے پاس ثبوت موجود ہیں ، افغان تفتیشی ٹیم کو سفیر کی بیٹی سے متعلق معاملے سے آگاہ کیا اور ہم نے افغان وفد کو مکمل طور پر مطمئن کر کے بھیجا ہے ، پھر کسی کو گلہ نہیں ہونا چاہیئے۔
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا کہ بھارت اور افغان ایجنسی این ڈی ایس نے ہمارے خلاف میڈیا وار چلائی ہوئی ہے ، افغان سفیر کی بیٹی کا تین زبانوں میں انٹرویوہمارے خلاف میڈیا وار کا حصہ ہے ، انہوں نے رویہ نہ بدلا تو ہمارے پاس تمام فوٹیجز موجود ہیں۔
واضح رہے کہ گذشتہ روز اسلام آباد میں مبینہ طور پر اغوا ہونے والی افغان سفیر کی بیٹی سلسلہ علی خیل کا اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے سے متعلق بیان سامنے آیا ، سوشل میڈیا پر جاری کیے گئے پیغام میں انہوں نے کہا کہ 16جولائی کو اغوا کا واقعہ پیش آیا جب میں اپنے چھوٹے بھائی کے لیے تحفہ لینے گئی ، چوں کہ ہماری رہائش اسلام آباد کے محفوظ علاقے میں تھی اس لیے میں نے اس دن ٹیکسی لی،جب تحفہ لینے کے بعد دوسری ٹیکسی میں بیٹھی تو اغوا کا واقعہ پیش آیا ، جب میں دوسری ٹیکسی میں بیٹی تو اغواکار ٹیکسی کے اندر داخل ہو گیا جس پر میں نے ڈرائیور سے کہا کہ آپ کو کسی دوسرے مسافر کو ٹیکسی میں بیٹھنے کی اجازت نہیں ہے۔
جس پر اغوا کار نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم افغان سفیر کی بیٹی ہو،اس نے کئی اور باتیں بھی کیں اور پھر مجھ پر تشدد شروع کر دیا،ایسا 5 منٹ تک ہوتا رہا،میں بہت زیادہ ڈر گئی تھی اور گھبرا کر اپنے ہوش و ہواس کھو بیٹھی،جب میرے ہوش و ہواس بحال ہوئے تو جسمانی طور پر ٹارچر کیا گیا بعدازاں مجھے گھر لایا گیا،جب ہسپتال میڈیکل چیک اپ کے لیے گئی تو وہاں پر پولیس بھی موجود تھی،وہاں پر مجھے سے ایک ہی سوال متعدد بار بار پوچھا گیا ، اس وقت میرے ذہن میں یہی بات چل رہی تھی کہ مجھ پر تشدد کیا گیا ہے اور میرا مکمل چیک اپ ضروری ہے ، شبہ تھا کہ اغوا کاروں نے مجھے بےہوش کرنے کے لیے کوئی نشہ دیا ہو گا اور اس کا چیک اپ ابتدائی 18 گھنٹوں میں ہونا ضروری تھا ، میڈیکل رپورٹ نے پولیس کو تحقیقات میں بھی مدد ملنی تھی،لیکن یہ بھی نہیں دیکھا گیا کہ میرے کپڑے کس حالت میں ہیں اور میں کہاں کہاں سے زخمی ہوں۔
سلسلہ علی خیل نے مزید کہا کہ جس طرح سے اغوا کیس میں طبی معائنہ کیا جانا چاہئے تھا اس طرح سے نہیں کیا گیا ، یہاں تک کہ ڈاکٹرز بھی یہ جاننا چاہتے تھے کہ میرے ساتھ کیا ہوا۔یہاں تک کہ او پی ڈی ڈاکٹر بھی مجھ سے یہ سوال کرتا رہا کہ مجھے شروع سے لے کر آخر تک بتاو تمہارے ساتھ کیا ہوا ، اگرچہ اس وقت میری ذہنی کیفیت ٹھیک نہیں تھی،میرے جسم میں درد تھا لیکن اس کے باوجود پہلے دن سے پولیس کے ساتھ بھرپور تعاون کیا ، واقعے کو تین روز گزر جانے کے باوجود بھی تحقیقاتی ٹیم مجھ سے وہی سوال دہراتی رہی ، واقعے کے چار دن بعد ہم ترکی چلے گئے،میری میڈیکل رپورٹ میں جسمانی اور تشدد کی تصدیق کی گئی۔
انہوں ے مزید کہا کہ میں اب جسمانی طور پر بہتر محسوس کر رہی ہوں لیکن ذہنی طور پر صحتمند ہونے کے لیے مجھے اب وقت درکار ہے، مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید میں ابھی بھی اس واقعے کی زد میں ہوں، مجھے برے خواب بھی آتے ہیں لہذا مجھے مکمل صحتیاب ہونے میں کچھ وقت لگے گا ، میری اپنی حکومت سے درخواست ہے کہ میرے کیس کی پیروی کریں،میری پاکستانی حکام سے بھی درخواست ہے کہ کیس کو لے کر ایمانداری کا مظاہرہ کریں ، میری درخواست ہے کہ مزید تاخیر کیے بغیر ملزمان کو سخت سزا دی جائے ،مجھے امید ہے انصاف ہو گا اور سچ سب کے سامنے لایا جائے گا۔