اسلام آباد: (سچ خبریں) پاکستان میں بدھ کے روز سیلاب سے مزید 18 افراد کے جاں بحق ہونے کی اطلاع موصول ہوئیں جب کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ‘پائیدار نظام’ کی ضرورت پر زور دیا جس کی عدم موجودگی کے باعث حالیہ مون سون سیزن کے دوران پاکستان میں غیر معمولی بد تین بارشیں اور سیلاب آئے۔
تباہ کن سیلاب کی بے انتہا شدت کے پیش نظر حکام کو امدادی کارروائیوں میں مشکلات کا سامنا ہے جب کہ حکومت کا کہنا ہے کہ قدرتی آفت سے سوا 3 کروڑ افراد متاثر ہوئے ہیں جو اس کی آبادی کا 15 فیصد ہیں۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مزید 18 افراد ہلاکت خیز سیلاب کے دوران جان کی بازی ہار گئے جب کہ 14 جون سے اب تک جاں بحق افراد کی تعداد ایک ہزار 343 ہو گئی ہے۔
نیشنل فلڈ رسپانس کوآرڈینیشن سینٹر (این ایف آر سی سی) نے اپنے بیان میں ان اعداد و شمار کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران سیلاب کی وجہ سے 17 افراد زخمی ہوئے ہیں جب کہ اب تک رپورٹ ہونے والے زخمیوں کی کل تعداد 12ہزار 720 ہو گئی ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ آج خیبرپختونخوا، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے کچھ علاقوں کے ساتھ ملحقہ پہاڑوں پر گرج چمک کے ساتھ بارش کا امکان ہے جب کہ ملک کے دیگر علاقوں میں موسم گرم اور مرطوب رہنے کی توقع ہے۔
آج صبح، این ایف آر سی سی کے ڈپٹی چیئرپرسن احسن اقبال اور فورم کوآرڈینیٹر میجر جنرل ظفر اقبال نے سیلاب کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے فورم کے اجلاس کی صدارت کی۔
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی ترقی، اصلاحات اور خصوصی اقدامات پروفیسر احسن اقبال نے کہا کہ حکومت کی اولین ترجیح سیلاب زدگان کی امداد یے جو پہلے دن سے جاری ہے اور اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے پوری قوم متاثرہ لوگوں کے ساتھ کھڑی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں سے متعدد بیماریاں سامنے آئی ہیں خاص طور پر پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں جس سے متاثرہ افراد کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔
ان خیالات کااظہار انہوں نے اپنی زیرصدارت نیشنل فلڈ ریسپانس کوآرڈینیشن سنٹر کے اجلاس میں کی، اجلاس میں سیلاب سے متعلق امدادی سرگرمیوں میں پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔
وفاقی وزیر نے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی این ڈی ایم اے اور صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز کو سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی بحالی کے لیے سروے تیز کرنے کی ہدایت کی اجلاس میں چیئرمین نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی این ڈی ایم اے ، صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز کے سربراہان اور دیگر متعلقہ اسٹیک ہولڈرز نے شرکت کی۔
وفاقی وزیر نے کہاکہ حکومت کی اولین ترجیح سیلاب زدگان کی امداد یے جو پہلے دن سے جاری ہے اور اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے پوری قوم متاثرہ لوگوں کے ساتھ کھڑی ہے۔
وفاقی وزیر نے متعلقہ حکام کو امدادی سرگرمیاں تیز کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ نقصانات کا جائزہ لینے کے لیے جلد سروے مکمل کیا جائے ۔انہوں نے کہاکہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں سے متعدد بیماریاں سامنے آئی ہیں خاص طور پر پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں جس سے متاثرہ افراد کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔
وفاقی وزیر نے وزارت صحت اور صوبائی حکومتوں کے حکام پر زور دیا کہ وہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں طبی امداد میں تیزی لائیں اور سیلاب سے متعلق امدادی سرگرمیوں میں آئی این جی اوز اور این جی اوز کو شامل کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو فائدہ پہنچایا جا سکے۔
انہوں نے حکام کو یہ بھی ہدایت جاری کیں کہ وہ لوگوں کو ریلیف کیمپوں کے بارے میں آگاہ کرتے رہیں اور ڈیمز میں پانی کی سطح کو باقاعدہ مانیٹر بھی کیا جائے ۔
دوسری جانب، وزیراعظم سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں جاری بحالی اور امدادی کاموں کا جائزہ لینے ڈیرہ اسماعیل خان پہنچنے، شہباز شریفنے ڈیرہ اسمٰعیل خان کے سیلاب سے متاثرہ سگو پل کادورہ کیا۔
اس موقع پر، گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم نے موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ‘پائیدار نظام’ کی ضرورت پر زور دیا۔
انہوں نے کہا کہ سیلاب کے بعد ریلیف اور بحالی کی سرگرمیوں کے لیے “ٹریلینز” درکار ہیں۔
وزیر اعظم محمد شہبازشریف نے کہا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بحالی وتعمیر نو کے لیے بڑے پیمانے پروسائل درکار ہوں گے، تاہم متاثرین کو ہر ممکنہ وسائل فراہم کریں گے، ٹانک میں 100 گھروں پر مشتمل بستی کا 2 ہفتے بعد افتتاح کریں گے، گھروں کی تعمیر کے لیے نقد رقم دینے یا گھر تعمیر کرکے دینے پر غور کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بارشوں کی وجہ سے سیلاب کے نقصانات سے بچائو کے لئے چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کرنا ہوگی، دیر پا منصوبے بنانے ہوں گے، متاثرین کی امداد شفاف طریقے سے ان تک پہنچائیں گے اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔
اس موقع پروزیراعطم کو ٹریفک کی بحالی اور دیگر امدادی سرگرمیوں پر بریفنگ دی گئی۔
وزیر اعظم کوبتایا گیا کہ سڑکوں اور پلوں کی بحالی کے لئے این ایچ اے نے دن رات کام کیا۔
سیلاب متاثرین کی مدد کے لئے تمام ادارے مل کرکام کررہے ہیں۔ اس موقع پر مولانا فضل الرحمن ، وزیرمواصلات مولانا اسعدمحمود، انجینئر امیر مقام بھی موجود تھے۔
سگو پل کےدورہ کے موقع پرگفتگوکرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ میں ایک بار پھر مصیبت کی اس گھڑی میں صورتحال کے جائزے کےلئے آپ کے پاس حاضر ہوا ہوں، گزشتہ مرتبہ ٹانک اور ڈیرہ آیا تھاتو اس وقت یہ علاقے حالیہ بارشوں کی تباہی سے پہلے کے ریلے میں مشکل سے نکل رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ اپنےرفقا کے ساتھ جا کر متاثرین کوتسلی دی تھی کہ اس وقت مشکل وقت اور قدرتی آفت ہے لیکن اللہ کی مدد سے وفاقی اور صوبائی حکومتیں ، ادارے اور افواج پاکستان مل کر پسند ناپسند اور سیاست سے بالاتر ہو کر علاقے کی خدمت کے لئے کام کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن ، اسعد محمود اور امیرمقام سمیت صوبائی قیادت کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے اپنی بساط کے مطابق بھر پور کام کیا، افواج پاکستان کاشکریہ اداکرتے ہیں جنہوں نے ہر جگہ متاثرین کو مدد فراہم کی اور اپنی استعداد سے بڑھ کردن رات انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قمبر شہدادکوٹ اور سندھ کے دیگرمتاثرہ علاقوں میں تاحدنگاہ پانی کھڑا ہے، بلوچستان، خیبر پختونخوا میں تباہی ہوئی ہے، سوات میں دریا کے اندر تعمیرات سنگین غلطی تھی، وہاں قطعی طور پر تعمیرات کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے تھی، وہاں سیلابی ریلے نے تباہی کی۔
ان کا کہنا تھا کہ لوئر کوہستان میں 5 افراد 5 گھنٹے تک تندوتیز لہروں میں کھڑے رہے اور اللہ کو پیارے ہو گئے۔ انہوں نے کہاکہ غذر میں گائوں صفحہ ہستی سے مٹ گیا۔ ایک خاندان کے 8 افراد لقمہ اجل بن گئے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ایک بچی اور اس کے خاندان کامعذورفرد زندہ بچے ،ان کو یقین دلایا کہ ان کی ہر ممکن مدد کریں گے ۔وہاں کے مقامی لوگوں سے بھی امید ہے کہ ان کا خیال رکھیں گے۔
انہوں نے کہاکہ اس سے پہلے پاکستان میں اس سےزیادہ تباہی نہیں دیکھی۔ گزشتہ حکومت نے وسائل کی بربادی کی ۔ ہم نے سیاست کو ایک طرف رکھ کر خدمت کرنی ہے، وفاق میں حکومت مخلوط ہے۔ اس حکومت نے پہلے28 ارب روپے متاثرہ گھرانوں کے لئے مختص کئے۔ 25 ہزار روپے فی خاندان دیئے جا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان میں 20ارب روپے شفاف طریقے بی آئی ایس پی کے ذریعے تقسیم کئے جا چکے ہیں۔ سیلاب کی تباہ کاریوں کے بڑھنے سے حقائق کی بنیاد پر تخمینہ اب 70 ارب روپےتک پہنچ گیا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ یہ مالی بوجھ وفاقی حکومت برداشت کررہی ہے باقی اخراجات اس کے علاوہ ہیں، اس کے علاوہ جاں بحق ہونے والوں کے لیے 10،10 لاکھ فی کس دے رہے ہیں، سندھ اور دیگر متاثرہ علاقوں میں لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں، وفاقی حکومت چاروں صوبوں ، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں متاثرین کے لئے یہ وسائل فراہم کررہی ہے، صوبے بھی اپنے وسائل سے دے رہے ہیں۔
شہباز شریف نے کہا کہ انہیں بھی مزید وسائل فراہم کرنے کی ضرورت ہے، وزیراعظم نے کہا کہ این ڈی ایم کے ذریعے 2 لاکھ خیمے چاروں صوبوں کو نقصانات کے حجم کے مطابق فراہم کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ این ایچ اے ، وزیر اورسیکرٹری مواصلات متاثرہ شاہراہوں کی بحالی کے لئے دن رات کام کررہے ہیں، ہم نے یہ نہیں دیکھا کہ وفاق یا صوبہ کس کاکام ہے، ہم اپنا کام کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جن علاقوں میں پانی کھڑا ہے وہاں وبائی امراض کے چیلنج کاسامنا ہے، یہاں صحت کی سہولیات کی فراہمی اور متاثرہ علاقوں میں تعمیر نو کے لئے کھربوں روپے درکار ہوں گے۔