اسلام آباد: (سچ خبریں) نگران وفاقی کابینہ نے صدارتی آرڈیننس کی حتمی منظوری دے دی جس کے تحت سرکاری اداروں کی نجکاری کے کیسز کو خصوصی طور پر نمٹانے کے لیے سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کے موجودہ جج کی سربراہی میں خصوصی ٹربیونل قائم کیا جائے گا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق کابینہ سے آرڈیننس کی منظوری کے بعد سرکاری اداروں کی نجکاری کے فیصلوں کو مختلف عدالتوں میں چیلنج کرنے کی ماضی کی روایت ختم ہو جائے گی۔
وفاقی کابینہ کے ایک رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر آرڈیننس کی سرکولیشن کے ذریعے منظوری کی تصدیق کی۔
انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ بنیادی طور پر سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنے کے لیے کیا گیا، سرکاری اداروں کی نجکاری کے فیصلے کو خصوصی ٹریبونل کے علاوہ کسی اور عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا، خصوصی ٹربیونل کے فیصلے کو صرف سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا سکے گا۔
کابینہ نے 4 خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں (ریڈیو پاکستان، نیشنل ہائی وے اتھارٹی، پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن، پاکستان پوسٹ آفس) کی نجکاری کے حوالے سے صدارتی آرڈیننس کی بھی منظوری دی۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے یکم دسمبر کو ان اداروں کے نظم و نسق اور انتظامی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کے لیے آرڈیننس کے نفاذ کی منظوری دی تھی۔
کابینہ کے فیصلے کے بارے میں کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا لیکن کچھ نجی ٹی وی چینلز نے آرڈیننس کی منظوری کے بارے میں اطلاعات نشر کیں۔
میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا کہ پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن، ریڈیو پاکستان اور پاکستان پوسٹ اب خودمختار بورڈز کے تحت کام کریں گے کیونکہ نگران حکومت نے 70 کروڑ ڈالر کی اگلی قسط کے اجرا کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے رکھی گئی ایک اور شرط پوری کرنے کے لیے ایک عمل شروع کیا ہے۔
نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کی تجویز پر صدر عارف علوی نے پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن ترمیمی آرڈیننس 2023، این ایچ اے ترمیمی آرڈیننس 2023، پاکستان پوسٹل سروسز مینجمنٹ بورڈ ترمیمی آرڈیننس 2023 اور پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن ترمیمی آرڈیننس 2023 پر دستخط کیے تھے جن کے تحت ان اداروں کو خود مختار بنایا گیا ہے لیکن یہ وزارت خزانہ کی نگرانی میں ہوں گے۔
یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اِن آرڈیننسز کے تحت اِن اداروں میں سے ہر ایک کے لیے ایک بورڈ آف ڈائریکٹرز قائم کیا جائے گا جس میں 6 سے 11 اراکین ہوں گے، جو سرکاری ملازمین کے بجائے پرائیویٹ سیکٹر کے ماہرین ہوں گے، جنہیں تنخواہ اور دیگر الاؤنسز دیے جائیں گے۔