کراچی: (سچ خبریں) چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے نواز شریف کے دورہ بلوچستان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ شاید میاں نواز شریف کو یہ تجویز دی گئی ہے کہ لاہور میں مسلم لیگ (ن) کو مشکلات کا سامنا ہے، اس لیے وہ ایک دو سیٹوں کے پیچھے دوسرے صوبے جانے کی تکلیف اٹھا رہے ہیں، میرا مشورہ ہے کہ وہ لاہور پر ہی دھیان دیں۔
مٹھی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کو لیول پلیئنگ فیلڈ کبھی نہیں ملی، آج بھی ایک قسم کی فیلڈ سجائی جا رہی ہے، جس کے لیے یہ فیلڈ سجائی جارہی ہے وہ اپنی جگہ، مگر پیپلز پارٹی ہر پچ پر کھیلنے کے لیے تیار ہے اور امید ہے کہ ہم جیتیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ میرا کسی سے اختلاف نہیں ہے، مجھے اپنی سیاست کرنی ہے، ہمارا کسی ادارے سے اس وقت بالکل جھگڑا نہیں، انہوں نے کہا کہ سیاست میں ہم اتنے تقسیم ہوگئے ہیں کہ ہم بات کرنے تک کے لیے تیار نہیں، گالم گلوچ، الزامات، انتقام کی سیاست نہ میری تربیت رہی ہے اور نہ میں سمجھ سکتا ہوں کہ اس صورتحال میں پاکستان ترقی کر سکتا ہے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے دعویٰ کیا کہ جو سیاسی جماعت تھوڑا استحکام لا سکتی ہے، جو ہر کسی کو ساتھ لے کی جاسکتی ہے وہ پیپلز پارٹی ہے، تاریخ نے یہ ثابت کیا ہے کہ پیپلز پارٹی کا ’طاقت کا سرچشمہ عوام ہے‘ کے نعرے کا مطلب یہ رہا ہے کہ ہم تو دائیں بائیں دیکھتے ہی نہیں، ہم عوام کو دیکھتے ہیں، ہماری کوشش ہوگی کہ اس ملک میں جمہوریت کے ذریعے بہتری لے کر آئیں، پیپلز پارٹی کا پی ڈی ایم کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کا فیصلہ وقت کی ضرورت تھا، قومی مفاد کو سامنے رکھ کر یہ فیصلہ کیا گیا، اگر سیاسی مفاد سامنے رکھتے تو دوسرا فیصلہ کیا جاتا۔
انہوں نے کہا کہ مجھے اندازہ ہوا کہ اسلام آباد اور عوام کے درمیان ایک بہت بڑا فاصلہ ہے، جو اسلام آباد میں بیٹھتے ہیں ان کو زمینی حقائق کے بارے میں کم معلوم ہے، سب جانتے ہیں کہ پیپلز پارٹی عوام کے دکھ درد کا احساس کرتی ہے اور جب وہ حکومت میں آتے ہیں تو وہ بینظیر انکم سپورٹ جیسا انقلابی منصوبہ لاتے ہیں جس کا فائدہ صرف اور صرف غریب کو ہوتا ہے۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم مسلم لیگ کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ آئیں، ہم سمجھتے ہیں کہ ہر صوبے کو وقت دیا جائے ہم ان کو ویلکم کریں گے لیکن اتنا کہوں گا کہ اپنی جماعت پر بھروسہ کریں، اس کے ذریعے سیاست کریں کسی دوسرے ادارے کو نہ کہیں کہ آپ میرے لیے سیاست کریں، آپ میرے لیے جگہ بنائیں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ میں نے 15 مہینے میں مسلم لیگ (ن) کے اندر کام کرنے کا طریقہ نزدیک سے دیکھا ہے اور میں نے ایسی سیاست نہیں دیکھی کہ 20 کے 20 ضمنی انتخابات ہوں، وفاقی حکومت بھی ہو صوبائی حکومت بھی ہو، ادارے بھی آپ کے ساتھ ہوں اور وہ پھر بھی الیکشن ہارے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں پی ڈی ایم سے نکالا گیا اور ہم پر تنقید ہوئی کہ ہم بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) سے مل گئے، باپ کے چند سینیٹرز کے ووٹ ہم نے کیسے لیے تو امید ہے کہ (ن) لیگ قائم رہے گی کہ اگر کل بلوچستان عوامی پارٹی بری تھی تو آج بھی بری ہوگی اور ایسے ہی کچھ میاں صاحب کے دورے میں سامنے آئے گا۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ میں ملک کا نوجوان وزیر خارجہ تھا، میں اپنے 15 مہینے کے کردار پر فخر کرتا ہوں، میں اس کردار پر الیکشن لڑنے کے لیے تیار ہوں، آپ شہباز شریف، اسحٰق ڈار، خرم دستگیر، خواجہ سعد رفیق، ایاز صادق، احسن اقبال سے پوچھیں کے کیا وہ اپنے 15 مہینے کی کارکردگی پر الیکشن لڑنے کے لیے تیار ہیں یا وہ اپنا منہ چھپا رہے ہیں؟
تھر پارکر میں کارکردگی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ تھرکول کا جو منصوبہ ہے وہ نہ صرف پورے پاکستان میں سب سے کامیاب فعال پبلک پرائیوٹ شراکت داری کا منصوبہ ہے مگریہ اور سندھ کے دیگر پبلک پرائیوٹ پارٹنررشپ کے منصوبے پورے ایشیا میں بہترین پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ منصوبے میں شامل ہے۔
صحت کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ تھرپارکر کے یو این ڈی پی اور ورلڈ بینک کے اعداو شمار کے مطابق ماؤں اور 5 سال سے کم عمر کے بچوں کی شرح اموات میں 50 فیصد تک کمی آئی، پپیلز پارٹی نے صحت کے شعبہ میں سرمایہ کاری کی، بچوں اور ماؤں کے لیے ایک کیش ٹرانسفر پروگرام شروع کیا جس میں بچے کی زندگی کے شروعات کے ہزار دنوں میں جب بھی ماں، بچے کو چیک اَپ کے لیے لاتی ہے تو اس کو وظیفہ ملتا ہے اور اس کے نتیجے میں بچے اور والدہ کی نشوونما میں بہتری آئی اور شرح اموات میں بھی کمی ہوئی۔
تعلیم سے متعلق سوال پر چیئرمین پیپلز پارٹی نے جواب دیا کہ ہمارا ارادہ ہے کہ تین اضلاع میں کالجز کھولیں تاکہ مرد اور عورت دونوں کو تعلیمی سہولت ملے، ہم پرائمری اور سیکنڈری ایجوکیشن پر دھیان دینا چاہ رہے ہیں، ٹیچر ٹریننگ کا ایک منصوبہ شروع ہوا جس سے ہمارا مقصد ہے کہ ان کا معیار اس سطح پر لائیں جس سے ہمارے بچوں کا فائدہ ہو، میں پرامید ہوں کہ ٹیچر کے معیار میں بہتری آئے گی۔
بڑھتے ہوئے خودکشی کے رجحان کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ خودکشی کا مسئلہ ایک افسوسناک مسئلہ ہے، مینٹل ہیلتھ میں آج تک پاکستان میں سرمایہ کاری نہیں ہوئی، اس کا علاج موجود نہیں، ہم کراچی میں پرائیویٹ سیکٹر کے ساتھ مل کر ایک ایسا ادارہ بنائیں گے اور این آئی سی وی ڈی کے طرز پر تمام اضلاع میں سہولت پہنچائیں گے کہ وہ ذہنی مسائل جس کی وجہ سے خودکشی کی جاتی ہے ان کو ایڈریس کیا جاسکے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ ملک کے جو معاشی حالات ہیں، جو غربت، بے روزگاری ہے، یہ مشکلات آخر کب ختم ہوں گی؟ اس کی وجہ سے ہم پشاور سے لاہور، لاہور سے تھرپارکر تک ایسے کیسز دیکھ رہے ہیں جہاں لوگ خودکشی کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ وہ اپنے بچوں کی ضروریات پوری نہیں کر سکتے اور یہ پاکستان، سیاستدانوں کے لیے شرمندگی کا باعث ہونا چاہیے۔