اسلام آباد:(سچ خبریں) الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عام انتخابات کے انعقاد کی جانب مثبت پیشرفت کرتے ہوئے حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرستیں جاری کردی ہیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے 17 اگست کو جاری کردہ اصل حلقہ بندی شیڈول کے تحت ابتدائی حلقہ بندی کی مشق 7 اکتوبر کو مکمل کی جانی تھی اور حلقہ بندی کی ابتدائی تجاویز رپورٹ کے ساتھ 9 اکتوبر کو شائع کی جانی تھیں۔
تاہم یکم ستمبر کو الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیوں کی مشق کی ٹائم لائنز کو 14 دن تک کم کرنے کا اعلان کیا تھا تاکہ اس عمل کو 14 دسمبر کے بجائے 30 نومبر کو مکمل کیا جا سکے۔
حلقہ بندیوں کی تکمیل پر الیکشن کمیشن نے جنوری کے آخری ہفتے تک انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا ہے تاہم انتخابات کی حتمی تاریخ کا اعلان ہونا ابھی باقی ہے۔
آج جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں الیکشن کمیشن نے کہا کہ ابتدائی حلقہ بندی کی رپورٹ، فہرستوں کے ساتھ(فارم 5) کمیشن کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کر دیا گیا ہے، عوام اس تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں اور ابتدائی حلقہ بندیوں کے نقشے بھی ویب سائٹ پر دستیاب ہیں۔
الیکشن کمیشن نے اس بات کو اجاگرکیا کہ متعلقہ حلقے کے ووٹرز ابتدائی حلقہ بندیوں پر اعتراضات کر سکتے ہیں، ابتدائی حلقہ بندیوں کی اشاعت 27 ستمبر سے 26 اکتوبر تک 30 دن کے لیے جاری رہے گی۔
الیکشن کمیشن نے کہا کہ یہ نمائندگی کمیشن کے سیکریٹری کو بھیجی جائیں اور 27 اکتوبر تک اسلام آباد میں الیکشن کمیشن آف پاکستان سیکریٹریٹ میں جمع کرائی جائیں گی۔
پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن ان نمائندگیوں پر 28 اکتوبر سے 26 نومبر تک متعلقہ فریقین کے موقف سننے کے بعد فیصلہ کرے گا۔
نامزدگی جمع کرانے کے طریقہ کار کی فہرست بناتے ہوئے کمیشن نے کہا کہ اسے متعلقہ حلقے کے ووٹر کے ذریعہ ایک ’میمورنڈم‘ کی شکل میں پیش کیا جانا چاہیے اور ووٹر کے دستخطوں پر مشتمل ہونا چاہیے۔ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ نمائندگیوں اور حلقوں کے نقشوں کی آٹھ کاپیاں جمع کرانے کی ضرورت ہے۔
پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ضلع کے نقشے الیکشن کمیشن سے معمولی فیس پر حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
کمیشن نے مزید کہا کہ کوریئر، ڈاک اور فیکس وغیرہ کی نمائندگی قبول نہیں کی جائے گی۔
الیکشن کمیشن نے ڈیجیٹل مردم شماری 2023 کے تحت ملک بھر میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نئی حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرست جاری کر دی ہے جس کے مطابق قومی اسمبلی کی عمومی نشستوں کی تعداد 266 ہے جبکہ ایک حلقے میں ووٹروں کی تعداد 8 لاکھ سے زائد رکھی گئی ہے۔
پنجاب اسمبلی کی کل نشستوں کی تعداد 297 برقرار ہے، سندھ اسمبلی کی کل جنرل نشستوں کی تعداد 130 ہے، خیبرپختونخوا اسمبلی میں کل عمومی نشستوں کی تعداد 115 جبکہ یہاں حلقوں میں ووٹروں کی تعداد 3 سے 5 لاکھ کے درمیان ہے۔
اسی طرح بلوچستان اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 51 جبکہ حلقوں میں ووٹروں کی تعداد 2 سے 4 لاکھ کے درمیان رکھی گئی۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق کسی بھی صوبے کی کل نشستوں کو ووٹروں کی مجموعی تعداد کے ساتھ تقسیم کرکے ہر حلقے میں کوشش کی گئی ہے کہ مساوی ووٹرز ہوں تاہم بلوچستان میں کئی نشستیں مختلف اضلاع پر بھی مشتمل ہیں۔
قومی اسمبلی کی وفاقی دارالحکومت سے تین، پنجاب سے 141، سندھ سے 61، خیبرپختونخوا 45 اور بلوچستان میں 16 نشستیں ہیں جبکہ ملک بھر میں کل 60 قومی اسمبلی کی مخصوص نشستیں ہوں گی۔
اسی طرح پنجاب اسمبلی کی جنرل نشستوں کی تعداد 297 جبکہ خواتین کی 66 اور غیر مسلموں کی 8 نشستیں ہوں گی، سندھ میں جنرل نشستیں 130، خواتین کی 29، غیر مسلموں کی 9 نشستیں ہوں گی۔
خیبرپختونخوا میں 115 جنرل، 26 خواتین، 4 غیر مسلموں کی نشستیں ہیں جبکہ بلوچستان کی 51 جنرل، 11 خواتین اور 3 غیر مسلموں کی نشستیں ہوں گی۔
قومی اسمبلی کی پنجاب میں ایک نشست کے لیے آبادی کی کم سے کم تعداد 9 لاکھ 5 ہزار 595، سندھ کے لیے 9 لاکھ 13 ہزار 52، خیبرپختونخوا کے لیے 9 لاکھ 7 ہزار 913، بلوچستان کے لیے 9 لاکھ 30 ہزار 900 جبکہ اسلام آباد کے لیے 7 لاکھ 87 ہزار 954 رکھی گئی ہے۔
اسی طرح پنجاب اسمبلی میں جنرل نشست کے لیے 4 لاکھ 29 ہزار 929، سندھ کے لیے 4 لاکھ 28 ہزار 432، خیبرپختونخوا کے لیے 3 لاکھ 55 ہزار 270 جبکہ بلوچستان کے لیے 2 لاکھ 92 ہزار 47 رکھی گئی۔
حلقہ بندی کی رپورٹ کے مطابق 2023 کی مردم شماری کے حتمی نتائج کی بنیاد پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کے حصے پر کام کیا گیا ہے۔
پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ صوبے یا علاقے کی آبادی کو جنرل نشستوں کی کل تعداد سے تقسیم کیا گیا ہے اور قومی اسمبلی کی فی نشست، اوسط آبادی یا کوٹہ حاصل کیا گیا ہے، اسی طرح ایک صوبے کی آبادی کو صوبائی اسمبلی کے لیے مختص کردہ جنرل نشستوں کی کل تعداد سے تقسیم کیا گیا ہے۔
کمیشن نے کہا کہ نشستوں کی کل تعداد کا حساب لگاتے ہوئے 0.5 اور اس سے اوپر کے فریکشن کو عام طور پر ایک نشست کے طور پر لیا گیا ہے اور 0.5 سے نیچے کے فریکشن کو نظر انداز کیا گیا ہے۔