اسلام آباد(سچ خبریں) قومی سلامتی کے مشیر (این ایس اے) معید یوسف امریکا کے سرکاری دورے پر روانہ ہوگئے جو مئی میں جنیوا میں اجلاس کے دوران ان کے اور امریکی مشیر قومی سلامتی جیک سلیوان کے درمیان اعلی سطحی مشغولیت کے لیے ہونے والے معاہدے کا حصہ ہے۔
اس دورے کے دوران معید یوسف جیک سلیوان سے ملاقات کریں گے تاکہ وہ امریکا اور پاکستان کے درمیان دوطرفہ تعلقات میں ہونے والی پیشرفت کا جائزہ لے سکیں۔
وہ دیگر امریکی قانون سازوں، سینئر عہدیداروں، امریکا میں مقیم تھنک ٹینکس کے علاوہ میڈیا اور پاکستانی برادری سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔
ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق 24 مئی کو ان کی پہلی ملاقات کو آئس بریکر کے طور پر دیکھا گیا تھا جو امریکی صدر جو بائیڈن انتظامیہ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد یہ دونوں ممالک کے مابین پہلا اعلیٰ سطح کا براہ راست رابطہ تھا۔
معاون خصوصی برائے قومی سلامتی معید یوسف نے شکایت کی کہ ابتدائی دنوں میں امریکا کی نئی انتظامیہ پاکستان کو خاطر خواہ وقت نہیں دے رہی تھی۔
جس پر ان کے امریکی ہم منصب نے دعویٰ کیا کہ کووڈ 19 وبائی بیماری کے باعث ایسا ہوا ہے کیونکہ انتظامیہ داخلی امور پر زیادہ توجہ دے رہی تھی۔امریکی سلامتی کے مشیر نے بھی امریکا اور پاکستان کے درمیان دوطرفہ مشغولیت کو بڑھانے اور برقرار رکھنے کا عہد کیا تھا۔بعد ازاں دونوں رہنماؤں کے مابین تبادلہ خیال کو ’مثبت‘ قرار دیا گیا۔
ڈان کی رپورٹ میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا اور ابھرتی ہوئی صورتحال میں پاکستان کے ایک کلیدی کھلاڑی کی حیثیت سے دیکھنے کے بارے میں امریکا کی خواہشات کا بھی ذکر کیا گیا جہاں امریکا کو یقین تھا کہ پاکستان طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ سیاسی تصفیے تک لانے کے لیے طالبان پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔
اس کے علاوہ دونوں رہنماؤں کی ملاقات ایسے وقت پر ہوئی تھی جب اس دوران پینٹاگون نے انکشاف کیا تھا کہ پاکستان نے امریکی فوج کو اپنی فضائی حدود کے استعمال اور زمینی حدود تک رسائی دے دی ہے تاکہ وہ افغانستان میں اپنی موجودگی کو یقینی بنا سکے۔
جس کے فوراً بعد ہی دفتر خارجہ نے امریکا کو پاکستانی سرزمین کے استعمال کی اجازت دینے کے حوالے سے میڈیا میں زیر گردش خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان نے امریکا کو فوج یا فضائیہ کا کوئی اڈا نہیں دیا۔
بعدازاں وزیر اعظم عمران نے کہا تھا کہ پاکستان افغانستان کے اندر کسی بھی طرح کی کارروائی کے لیے اپنے کسی بھی اڈے اور اپنے سرزمین کو امریکا کو استعمال کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دے گا۔
ایچ بی او کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ہرگز نہیں (Absolutely Not( کسی بھی صورت ہم پاکستانی حدود سے افغانستان میں اپنے کسی بھی طرح کی کارروائی کے لیے کسی بھی اڈے یا سرزمین کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے‘۔
اس سے بھی امریکا اور پاکستان کے درمیان دوریاں بڑھنے کا تاثر پیدا ہوا تھا جو افغانستان میں امریکی جنگ طویل عرصے سے اس کا اتحادی رہا ہے۔
تاثر اس وقت مزید گہرا ہوگیا جب وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ ماہ زور دے کر کہا تھا کہ امریکا اور مغربی قوتوں کی یہ ’ ناانصافی‘ ہے کہ وہ پاکستان جیسے ممالک پر ’دباؤ‘ ڈالیں کہ وہ چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو کم کرے۔
وزیر اعظم نے کہا تھا کہ دباؤ کے باوجود پاکستان چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو تبدیل یا اسے کم نہیں کرے گا کیونکہ تعلقات بہت ’گہرے‘ ہیں۔
انہوں نے چین کے انگریزی زبان کے سرکاری نشریاتی ادارے چائنا گلوبل ٹی وی نیٹ ورک کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’جو بھی ہو، چاہے ہم پر دباؤ ڈالا جائے، دونوں ممالک کے درمیان ہمارے تعلقات میں کوئی تبدیلی نہیں آنے والی ہے‘۔
اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے امکان ہے کہ معید یوسف کا دورہ امریکا کو امریکا اور پاکستان کے تعلقات میں تبدیلی لانے میں ایک اہم پیشرفت کے طور پر دیکھا جائے گا خاص طور پر جب حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن بھی بھارت روانہ ہوئے اور بھارت اور پاکستان کے درمیان مستحکم تعلقات پر زور دیا۔