اسلام آباد:(سچ خبریں) پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا۔
سابق وزیراعظم کی متعدد آڈیوز لیک منظر عام پر آئی تھیں جس میں وہ مبینہ طور پر اپنے ساتھیوں اور پرنسپل سیکریٹری کے ساتھ امریکی سائفر سے متعلق حکمت عملی ترتیب دینے کے لیے بات چیت کرتے سنے گئے تھے۔
سپریم کورٹ میں آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے دائر درخواست میں وفاقی وزارت داخلہ، وفاقی وزارت دفاع اور وفاق کو فریق بنایا گیا ہے۔ درخواست میں سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ آڈیو لیک کے حوالے سے جوڈیشل کمیشن یا مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنائی جائے اور عدالت حکومت اور متعلقہ اتھارٹی کو مزید آڈیو جاری کرنے سے روکنے کا حکم دے۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ آڈیو لیکس کے ذمہ داروں کو سخت سزا دی جائے۔ ساتھ ہی درخواست میں عدالت سے یہ بھی کہا گیا کہ وزیر اعظم ہاؤس اور آفس کی نگرانی، ڈیٹا ریکارڈنگ اور آڈیو لیکس کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔ یہاں یہ بات مدِ نظر رہے کہ سابق وزیراعظم کے علاوہ موجودہ وزیراعظم شہباز شریف کی مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کے ساتھ دفتر وزیراعظم میں گفتگو کی آڈیوز بھی منظر عام پر آئی تھیں۔
مذکورہ آڈیوز کی تحقیقات کے لیے حکومت نے انکوائری کمیٹی تشکیل دی تھی جس کے مطابق اس فعل میں پی ایم آفس کے عملے کے اراکین ملوث تھے جن کے خلاف کارروائی کا آغاز کردیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ 28 ستمبر 2022 کو مبینہ طور پر پہلی آڈیو لیک ہوئی تھی جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کے ساتھ مبینہ امریکی سائفر کے حوالے سے گفتگو میں انہیں اس حوالے سے ہدایات دیتے ہوئے سنا جاسکتا ہے۔
آڈیو کی ابتدا میں مبینہ طور پر عمران خان نے کہا کہ ’ہم نے بس صرف کھیلنا ہے اس کے اوپر، نام نہیں لینا امریکا کا، صرف کھیلنا ہے کہ یہ تاریخ پہلے سے تھی اس کے اوپر۔‘ گفتگو میں مبینہ طور پر اعظم خان نے کہا تھا کہ ’میں سوچ رہا تھا کہ یہ جو سائفر ہے میرا خیال ہے ایک میٹنگ اس پر کر لیتے ہیں، دیکھیں آپ کو یاد ہو تو سفیر نے آخر میں لکھا تھا ڈیمارش کریں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر ڈیمارش نہیں بھی دینا تو میں نے رات کو اس پر بہت سوچا کہ اس کو کس طرح کور کرنا ہے، ایک میٹنگ کرتے ہیں جس میں شاہ محمود قریشی اور سیکریٹری خارجہ ہوں گے۔‘ بات کو جاری رکھتے ہوئے آڈیو میں مزید کہا گیا تھا کہ ’شاہ محمود کو کہیں گے کہ وہ لیٹر پڑھ کر سنائیں، وہ جو بھی پڑھ کر سنائیں گے اسے کاپی میں بدل دیں گے، وہ میں منٹس میں (تبدیل) کردوں گا کہ سیکریٹری خارجہ نے یہ چیز بنادی ہے۔‘
آڈیو میں مبینہ طور پر اعظم خان نے مزید کہا تھا کہ ’بس اس کا کام یہ ہوگا کہ اس کا تجزیہ ہوگا جو اپنی مرضی کے منٹس میں کردیں گے تاکہ دفتری ریکارڈ میں آجائے اور تجزیہ یہی ہوگا کہ سفارتی روایات کے خلاف دھمکی دی گئی، سفارتی زبان میں اسے دھمکی کہتے ہیں۔‘
مبینہ طور پر اعظم خان بات کو جاری رکھتے ہوئے مزید کہتے ہیں کہ ’(میٹنگ کے) منٹس تو پھر میرے ہاتھ میں ہیں نا وہ پھر (اپنی مرضی سے) ڈرافٹ کرلیں گے‘ اس پر عمران خان کو یہ پوچھتے سنا گیا کہ ’تو پھر کس کس کو بلائیں اس میں، شاہ محمود قریشی، آپ (اعظم خان) اور سہیل (سیکریٹری خارجہ)، ٹھیک ہے تو پھر کل ہی کرتے ہیں۔‘
آگے اعظم خان کو مزید کہتے سنا گیا کہ ’تاکہ چیزیں ریکارڈ پر آجائیں، آپ یہ دیکھیں یہ قونصلیٹ فار اسٹیٹ ہیں، وہ پڑھ کر سنائے گا تو میں کاپی کرلوں گا آرام سے تو آن ریکارڈ آجائے گا کہ یہ چیز ہوئی ہے‘۔ آڈیو میں مبینہ طور پر اعظم خان نے عمران خان سے مزید کہا تھا کہ ’آپ سیکریٹری خارجہ کو بلائیں تاکہ بیوروکریٹک ریکارڈ پر چلا جائے۔‘
جس کے بعد عمران خان کی آواز میں کہا گیا کہ ’نہیں تو اسی نے تو لکھا ہے سفیر نے‘۔ جس پر اعظم خان کو یہ کہتے سنا گیا کہ ’ہمارے پاس تو کاپی نہیں ہے نا۔۔۔۔۔ یہ کس طرح انہوں نے نکال دیا۔‘ اس پر مبینہ طور پر عمران خان نے کہا کہ ’یہ یہاں سے اٹھی ہے، اس نے اٹھائی ہے، لیکن خیر ہے تو غیر ملکی سازش۔‘ سابق وزیراعظم عمران خان کی مبینہ سائفر سے متعلق دوسری آڈیو 30 ستمبر 2022 کو لیک ہوئی تھی۔
منظر عام پر آنے والی لیک آڈیو میں سابق وزیر اعظم اور پی ٹی آئی رہنما اسد عمر، شاہ محمود قریشی اور سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم عمران خان کو سنا گیا۔ آڈیو میں عمران خان کہتے ہیں کہ’اچھا شاہ جی، کل آپ نے، ہم نے، تینوں نے اور سیکریٹری خارجہ نے میٹنگ کرنی ہے، اس میں ہم نے صرف کہنا ہے کہ وہ جو لیٹر ہے نا اس کے چپ کر کے مرضی کے منٹس لکھ دے، اعظم خان کہہ رہا ہے کہ اس کے منٹس بنا لیتے ہیں، اسے فوٹو اسٹیٹ کرا لیتے ہیں‘۔
اس موقع پر ایک اور آواز سنی جاتی ہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اعظم خان کی تھی، وہ پوچھتے ہیں کہ ‘یہ سائفر 7 یا 8 تاریخ کو آیا تھا؟’ مبینہ طور پر عمران خان کہتے ہیں کہ ‘ملاقات 7 تاریخ کو ہوئی تھی’۔ عمران خان کہتے ہیں کہ ‘ہم نے تو امریکیوں کا نام لینا ہی نہیں ہے، کسی صورت میں، اس ایشو کے اوپر پلیز کسی کے منہ سے امریکا کا نام نہ نکلے، یہ بہت اہم ہے آپ سب کے لیے، کس ملک سے لیٹر آیا ہے، میں کسی کے منہ سے اس کا نام نہیں سننا چاہتا’۔
اس دوران مبینہ طور پر اسد عمر کہتے ہیں کہ ‘لیٹر نہیں ہے، میٹنگ کی ٹرانسکرپٹ ہے’، اس پر عمران خان کہتے ہیں کہ ‘وہی ہے نا، میٹنگ کی ٹرانسکپرٹ اور لیٹر ایک ہی چیز ہے، لوگوں کو ٹرانسکرپٹ تو نہیں سمجھ آنی تھی نا، آپ پبلک جلسے میں تو یہ کہتے ہیں’ رواں ماہ کے اوائل میں لیک ہونے والی تیسری مبینہ آڈیو لیک میں مبینہ طور پر اسد عمر کو کہتے سنا گیا کہ ’یہ جو ہم لیٹر والا اب کر رہے ہیں یہ زرا ہفتہ، دس دن پہلے شروع کرنا چاہیے تھا۔’
مبینہ آڈیو لیک میں عمران خان کہہ رہے تھے کہ ’اس لیٹر کا بہت بڑا یعنی جو ہم سوچ رہے ہیں کہ اس کا ساری دنیا میں اثر (امپیکٹ) چلا گیا ہے۔‘ سابق وفاقی وزیر شیریں مزاری کو مبینہ طور پر کہتے سنا گیا کہ ’چین نے آفیشل بیان جاری کیا ہے، جس میں وہ ہمارے اندورنی معاملات پر مداخلت کرنے پر امریکا کی مذمت کر رہے ہیں۔‘
عمران خان مبینہ طور پر کہہ رہے تھے کہ ’اسٹریٹجی (حکمت عملی) یہ ہے کہ پبلک تو ہمارے ساتھ لگ چکی ہے، اب پبلک کے پریشر سے ہم چاہتے ہیں (وی وانٹ) اب اتوار کو اس طرح ہائٹ پر پریشر ہو کہ جو بھی وہاں جائے گا اسمبلی میں، ووٹ دینے کے لیے، یعنی وہ برینڈڈ ہو فار لائف لیکن جو آج آپ نے برینڈ کرنا ہے نا، میر جعفراور میر صادق، دیکھو، آپ کو لوگوں کو اسپون فیڈ کرنا ہے، مائنڈز الریڈی فرٹائل گراؤنڈ (لوگوں کے ذہن پہلے ہی زرخیز بن چکے ہیں) بنی ہوئی ہے کہ ان کو آپ فیڈ کردیں گے۔
رواں برس مارچ میں ایک جلسے کے دوران اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے اپنی جیب سے خط نکال کر دعویٰ کیا تھا کہ ان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد ان کی بیرونی پالیسی کے سبب ’غیر ملکی سازش‘ کا نتیجہ تھی اور انہیں اقتدار سے ہٹانے کے لیے بیرون ملک سے فنڈز بھیجے گئے۔
اگرچہ انہوں نے ابتدائی طور پر دھمکی آمیز خط کے بارے میں کوئی خاص تفصیلات فراہم نہیں کی تھیں لیکن اس کے بعد ناقدین کی جانب سے ان کے دعوے پر شک کرنے کی وجہ سے تھوڑی تفصیلات دیں۔ سابق حکومت نے ابتدائی طور پر اس خط کو چیف جسٹس آف پاکستان کے ساتھ شیئر کرنے کی پیشکش کی، لیکن بعد میں وزیر اعظم نے اپنی کابینہ کے ارکان کو خط کے مندرجات سے بھی آگاہ کیا۔
خفیہ دستاویزات کے افشا ہونے پر قانونی پابندی کے پیش نظر صحافیوں کے ایک گروپ کو وزیراعظم کے ساتھ بات چیت کے دوران کابینہ کے اجلاس کے نکات فراہم کیے گئے تھے۔ اس ملاقات میں کسی غیر ملکی حکومت کا نام نہیں لیا گیا لیکن میڈیا والوں کو بتایا گیا کہ میزبان ملک کے ایک سینئر عہدیدار نے پاکستانی سفیر کو کہا تھا کہ انہیں وزیر اعظم عمران خان کی خارجہ پالیسی، خاص طور پر ان کے دورہ روس اور یوکرین جنگ سے متعلق مؤقف پر مسائل ہیں۔
مبینہ طور پر یہ سفارتی کیبل 7 مارچ کو اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پیش کرنے اور اس پر ووٹنگ کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے سے ایک روز قبل بھیجی گئی تھی۔ دریں اثنا علیحدہ طور پر یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ یہ سفارتی کیبل امریکا میں پاکستان کے اُس وقت کے سفیر اسد مجید نے کے معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور، ڈونلڈ لو سے ملاقات کی بنیاد پر بھیجی تھی۔
بعد ازاں پی ٹی آئی حکومت نے اس سفارتی کیبل کو اپنا اقتدار ختم کرنے کی سازش قرار دیتے ہوئے اس پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بھی بلایا تھا۔ اجلاس میں مراسلے کو پاکستان کے معاملات میں ’کھلی مداخلت‘ قرار دیتے ہوئے اس کا سفارتی طور پر جواب دینے کا عزم ظاہر کیا گیا تھا۔
حکومت کی تبدیلی کے بعد وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں قومی سلامتی کمیٹی کا ایک اور اجلاس ہوا تھا جس کے اعلامیے میں کہا گیا کہ قومی سلامتی کمیٹی کو اعلیٰ ترین سیکیورٹی ایجنسیوں نے دوبارہ مطلع کیا ہے کہ انہیں کسی سازش کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔ اجلاس کے دوران قومی سلامتی کمیٹی نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ کوئی غیر ملکی سازش نہیں ہوئی ہے۔