دادو: (سچ خبریں) چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ سیلاب میں جو لوگ بے گھر ہوئے ان کیلئے پلاننگ کر رہے ہیں، میرے پاس ایک آئیڈیا ہے کہ پری فیب گاؤں بنائیں، 2 بیڈ روم، 1 باتھ ، 1 کچن پر مشتمل گھر 5 لاکھ روپے میں بن جاتا ہے۔
انہوں نے دادو میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں تقریباً پاکستان کے تمام سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کرچکا ہوں، اوتھل سے لے کر نصیرآباد، راجن پور، سوات، لاڑکانہ ، شداد کوٹ ، خیرپور اور آج میں یہاں دادو میں آیا ہوں، سب سے زیادہ تباہی اس علاقے میں آئی ہے، یہاں منچھر جھیل اور حمل جھیل جن کا فاصلہ 100کلومیٹر ہے وہ مل چکی ہیں، باقی علاقوں میں ریسکیو کا کام تقریباً مکمل ہوچکا ہے، جہاں پر کوئی بیمار تھا،زخمی ہوگیا، کسی کو سانپ کاٹ گیا ،وہاں پر ہم نے اپنی بوٹ بھیج کر ان کو ریسکیو کیا۔
لیکن یہاں پر ریسکیو اور ریلیف کا کام جاری ہے ، یہاں دادو شہرکی آبادی تقریبا پونے پانچ لاکھ ہے،لیکن اس وقت اس کی آبادی ایک ملین کے قریب پہنچ چکی ہے، یہاں پر پانی کا بہت زیادہ پریشر ہے، ڈی سی دادو نے فوج کے ساتھ مل کر اچھا کام کیا اور بندھ بنائے گئے ہیں، یہاں پر ریسکیو اور ریلیف کے پہلے فیز کا کام چل رہا ہے۔ اس وقت پاکستان سے لوگ امداد دے رہے ہیں، پنجاب اور خیبرپختونخواہ سے بہت امداد آرہی ہے، لیکن سندھ کے شہری اور دیہاتوں میں رہنے والے لوگوں سے درخواست کروں گا کہ سیلاب میں پھنسے ہمارے بھائی بہت مشکل میں ہیں امداد لے کر آئیں ہمیں ہر چیز کیلئے عالمی کمیونٹی کو نہیں دیکھنا چاہیے حالانکہ انٹرنیشنل کمیونٹی نے اپنا کام شروع کردیا ہے، ورلڈ فوڈ پروگرام، یوایس ایڈ کے لوگ بھی پہنچ گئے ہیں، سیکرٹری جنرل یواین بھی آگئے ہیں۔
امریکن ، یورپ، چین ، اور پورا مشرق وسطیٰ وہاں سے امدادی سامان کی پروازیں آنا شروع ہوگئی ہیں،لیکن ان کی ایک حد ہے باقی اپنے لوگوں کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہماری اپنی ہے۔ سیلاب زدہ علاقوں میں بحالی کا کام بڑا چیلنج ہے، ہم ہمیشہ دریائی سیلاب کیلئے تیار رہے ہیں اس کی ہماری پوری تیار تھی، جس علاقے میں 50ملی میٹر بارش ایک سال میں ہوتی ہے اگر وہاں ایک ہفتے میں 1700ملی میٹر بارش ہوجائے اس کیلئے ہماری تیار نہیں تھی، خاص طور پر دریا کا مغربی کنارہ جو تھا، اس طرف سیلاب نے بہت زیادہ تباہی مچائی، ہم نے دریائی سیلاب سے متعلق 2017میں ہالینڈ کی کمپنی سے ایک سٹڈی کرائی تھی، اب ہمیں اسے دوبارہ ری وزٹ کرنا پڑے گا لیکن یہ نیا فینومینا جو آگیا ہے یہ اب رہے گا،دیکھنا ہے کہ ہمیں دریائے سندھ کے مغربی کنارے سے سیلاب کی تباہی سے بچنے کیلئے کیا علاج کرنا ہے؟ ڈیمز بنانے ہیں، ڈرینج سسٹم بنانے ہیں، ورنہ بار بار لوگ تنگ ہوتے رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے ہوم ورک کرلیا ہے۔بے گھر لوگوں کیلئے طویل المدتی کام کریں گے، میرے پاس ایک آئیڈیا آیا ہے کہ ہم پری فیب ویلج بنادیں، یہ ویلج چند دنوں میں بن جاتا ہے، ہم پچاس سے 100گھروں کا دیہات بنائیں گے، اس کیلئے جگہ سندھ یا بلوچستان میں ہوگی، دو بیڈ رومز، ایک کچن اور باتھ روم کا گھر پانچ لاکھ میں بن جاتا ہے، اس کی عمر بھی50 سے 100سال تک رہتی ہے، اس کو اگر اونچی جگہ بنادیں تو لوگ محفوظ رہیں گے۔
اس کے ساتھ ان علاقوں میں بیماریاں ڈینگی، ملیریا، اور پانی سے پھیلنے والی بیماریاں ہیں، اس کیلئے اضافی میڈیکل کیمپ لگائے جارہے ہیں، چیلنج ہے لیکن چیلنج میں مواقع بھی ہوتے ہیں، اس چیلنج سے ہم نے بہت کچھ سیکھا ہے امید ہے کہ حکومت کے ساتھ مل کرآئندہ کی منصوبہ بندی کریں گے اور ان لوگوں کی زندگیاں پہلے سے بہتر کرسکیں گے۔کوٹری سے پانچ لاکھ پانی کا ریلہ گزر رہا ہے، جس وقت دریائے سندھ میں پانی کم ہوجائے گا تو منچھر جھیل کا پانی بھی دریائے سندھ میں جانا شروع ہوجائے گا،تو پانی کم ہونا شروع ہوجائے گا، ابھی کئی جگہوں پر 10فٹ تک پانی ہے، لیکن کئی جگہوں پرکم ہونا بھی شروع ہوگیا ہے۔
لیکن سکھر اور خیرپور کے علاقوں میں ہمیں کچھ اور تدابیر کرنی پڑیں گی یعنی پمپس یا ڈرینج سسٹم کرنا پڑے گامہم انٹرنیشنل کمیونٹی کو بتایا کہ گلوبل وارمنگ میں ہمارا ایک فیصد سے بھی ہم حصہ ہے، پاکستان میں 2010میں بھی بہت بڑا سیلاب آیا اب 2022میں بھی سیلاب آگیا ہے، دوسروں کے کام کی وجہ سے ہمیں مصیبت ہورہی ہے، ہمارے گلیشئر بھی پگھل رہے ہیں۔
اس حوالے سے پوری دنیا کو کام کرنا پڑے گا پاکستان اکیلا کچھ نہیں کرسکتا، لوگوں نے آواز اٹھانا شروع کردی ہے اگر کچھ نہ کیا تو ساری دنیا کیلئے مصیبت آسکتی ہے، اس سال دیکھا ہوگا کہ سردی آئی نہیں بلکہ موسم بہار کی بجائے ہم موسم گرما میں چلے گئے، کچھ مہینے انگلینڈ میں تھا تو وہاں بھی سخت گرمی تھی اور انگلینڈ بھی سوکھا ہوا تھا، گلوبل وارمنگ کے اثرات سب جگہوں پر آرہے ہیں، اس کا حل یہی ہے کہ ہم انرجی کے متبادل ذرائع کی جانب جائیں، ہائیڈرو کاربن ، تیل سے بجلی بنانے اور کوئلے کی بجائے توانائی کے متبادل ذرائع استعمال کرنے ہوں گے، پاکستان میں مزید بڑے ڈیمز بنانے پڑیں گے،سوات میں بھی ڈیمز بنانے ہوں گے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے سندھ کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا، آرمی چیف نے دادو اور دیگر سیلاب متاثرہ علاقوں کا فضائی جائزہ بھی لیا، آرمی چیف نے سیلاب سے متاثرہ افراد کے ساتھ وقت گزارا، آرمی چیف نے دادو اور اطراف کے علاقوں میں 5 ہزار خیمے تقسیم کرنے کی بھی ہدایت کی۔ آرمی چیف نے ریلیف کی سرگرمیوں میں مصروف جوانوں کیساتھ بھی گفتگو کی۔