انہوں نے کہا کہ سیکرٹریٹ کا عملے کو کچھ اراکین کے دستخط پر بھی شبہ ہے جو اسمبلی میں درج ان کے دستخط سے مختلف معلوم ہوتے ہیں بڑے پیمانے پر قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہونے کا فیصلہ عمران خان کی زیر صدارت پی ٹی آئی کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا تھا اور 11 اپریل کو ایوان میں وزیر اعظم کے انتخاب قبل اس فیصلے کا اعلان پارٹی کے نائب چیئرمین شاہ محمود قریشی نے کیا تھا.
اس دوران بطور قائم مقام اسپیکر خدمات سر انجام دینے والے سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے فوری طور پر استعفے قبول کرتے ہوئے سیکرٹریٹ کو اعلامیہ جاری کرنے کی ہدایت کی تھی14 اپریل کو پی ٹی آئی نے سوشل میڈیا کے ذریعے سیکرٹریٹ کا اعلامیہ جاری کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ 123 اراکین قومی اسمبلی اپنے ہاتھوں سے اسپیکر کو استعفیٰ لکھ کر اپنی نشستوں سے مستعفی ہوچکے ہیں.
قومی اسمبلی کے سیکرٹری طاہر حسین کے دستخط شدہ نوٹیفکیشن میں اعلان کیا گیا تھا کہ استعفے جمع کرانے کے بعد ان کی نشستیں آئین کے آرٹیکل 64(1) کے تحت خالی ہو گئی ہیں جس کا اطلاق 11 اپریل سے ہو گا راجہ پرویز اشرف کو درپیش ایک اور چیلنج اپوزیشن کا تقرر ہے، پی ٹی آئی کی قیادت بضد ہے کہ وہ اسمبلی میں واپس نہیں آئی گی تاہم ان کے پاس تقریباً دو درجن پی ٹی آئی منحرف اراکین میں سے اپوزیشن رہنما کو منتخب کرنے کے علاوہ کو دوسرا راستہ موجود نہیں ہے اس صورتحال میں انہیں نااہلی کا سامنا کرنا پڑے گا .
ذرائع کے مطابق اس عہدے کے لیے تحریک انصاف کے منحرف اراکین میں رسہ کشی جاری ہے نور عالم خان اور راجہ ریاض سمیت تین مزیداراکین اس عہدے کے لیے امیدوار ہیں جو پہلے ہی اپنے ساتھیوں کے دستخط کے ساتھ اسپیکر کو درخواست جمع کرواچکے ہیں. پی ٹی آئی اراکین کے استعفوں اور وزیراعظم شہبازشریف کی جانب سے نئی کابینہ کی تشکیل کے بعد نامکمل کمیٹیوں کی وجہ سے پارلیمنٹ تقریباً غیر فعال ہوگئی ہے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے تمام پینلز کی تشکیل کے تجزیے کے مطابق قومی اسمبلی کی تمام کمیٹیاں اب نامکمل ہیں اور 60 فیصد سے زائد سربراہان کے بغیر ہیں، یا تو پی ٹی آئی کے قانون سازوں کے استعفے یا وفاقی کابینہ میں ان کے چیئر مینوں کی شمولیت کی وجہ سے نامکمل ہیں.سربراہ کے بغیر اہم کمیٹیوں میں سب سے طاقتور پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کے ساتھ ساتھ چین پاکستان اقتصادی راہداری اور کشمیر سے متعلق پارلیمانی کمیٹیاں بھی شامل ہیں مزید برآں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی خزانہ اور محصولات سے متعلق قائمہ کمیٹیوں کے پاس بھی سربراہ موجود نہیں ہیں، اس وقت حکومت کے پاس مالی سال 2022-23 کا وفاقی بجٹ پیش کرنے میں صرف ایک ماہ رہ گیا ہے.
دونوں ایوانوں کی کمیٹیوں کو پارلیمنٹ کی توسیع کے طور پر جانا جاتا ہے کیونکہ تمام قانون سازی اور اہم مسائل جو ایوانوں میں آتے ہیں ان کو تمام متعلقہ فریقوں پر مشتمل مکمل بحث کے لیے متعلقہ کمیٹیوں کے پاس بھیج دیا جاتا ہے قواعد کے تحت، کمیٹیوں کو 60 دنوں کے اندر اپنی رپورٹیں کسی بھی ایوان میں پیش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جس کے بعد دونوں ایوانوں کے اراکین بل پر ووٹ دیتے ہیں.
قائمہ کمیٹیاں کسی بھی ایوان میں پارٹی کی پوزیشن کی بنیاد پر تشکیل دی جاتی ہیں اور کیونکہ پی ٹی آئی حکمران جماعت تھی، اس لیے قومی اسمبلی کی تمام کمیٹیوں میں اس کی نمائندگی سب سے زیادہ تھی پی ٹی آئی کے اراکین کے استعفوں کے بعد قومی اسمبلی کی دیگر کمیٹیاں جو چیئرمینز کے بغیر ہیں ان میں ہوا بازی، داخلہ، موسمیاتی تبدیلی، دفاع، اطلاعات و نشریات، اقتصادی امور، توانائی، خارجہ امور، ہاﺅسنگ اینڈ ورکس، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن، منصوبہ بندی، ریاستیں اور سرحدی علاقے سے متعلق کمیٹیاں شامل ہیں.
30 اپریل کو اسپیکر نے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان سمیت تمام جماعتوں کے پارلیمانی رہنماو¿ں کو خطوط لکھے تھے، جن میں انتخابی اصلاحات سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کے لیے اپنی نامزدگیوں کو آگے بڑھانے کے لیے کہا گیا تھا تاہم موجودہ سیاسی صورتحال کے پیش نظر پی ٹی آئی کی جانب سے کاغذات نامزدگی بھیجے جانے کا امکان نہیں ہے. ادھر آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر قومی اسمبلی میں ٹائپ شدہ استعفوں کو بنیاد بناکر سپیکر قومی اسمبلی تحریک انصاف کے استعفوں کو منظور کرتے ہیں تو پنجاب میں مسلم لیگ نون کو بڑی پریشانی کا سامنا کرنے پڑے گا اور تحریک انصاف سپیکر قومی اسمبلی کے فیصلے کو بنیاد بناکر سابق وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کے ٹائپ شدہ استعفے کی منظور ی کو چیلنج کرکے حمزہ شہباز کے انتخابات کوکالعدم قراردینے کے لیے ایک اور درخواست دائرکردے گی جس سے نون لیگ کو دھچکا پہنچے گاماہرین کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی غیرموجودگی سے پارلیمان نامکمل رہے گی تو عدالت کی جانب سے عثمان بزدار کے استعفے کو غیرمنظور شدہ قراردینے سے پنجاب میں مسلم لیگ نون کو حکومت سے ہاتھ دھونا پڑیں گے جس کا فائدہ تحریک انصاف کو ہوگا.