صوبوں سے زرعی انکم ٹیکس کی مؤثر وصولی پر وضاحت نہ ملنے پر آئی ایم ایف کو تشویش

🗓️

اسلام آباد: (سچ خبریں) زرعی انکم ٹیکس سے متعلق چاروں صوبائی اسمبلیوں کی جانب سے منظور شدہ قانون سازی کے باوجود آئی ایم ایف کے ساتھ جاری جائزہ مذاکرات میں اب تک مؤثر وصولی کے طریقہ کار کے بارے میں حتمی وضاحت حاصل نہیں ہوسکی ہے، جس کا اطلاق یکم جولائی 2025 سے ہونا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق باخبر ذرائع نے بتایا کہ نیتھن پورٹر کی سربراہی میں آئی ایم ایف کے جائزہ مشن نے تقریباً 2 دن تمام صوبوں کے ساتھ انفرادی طور پر رابطے میں گزارے اور ایک مشترکہ تکنیکی ورکشاپ کا انعقاد کیا تاکہ مؤثر اور یکساں اے آئی ٹی جمع کرنے کی راہ تلاش کی جا سکے۔

ذرائع نے انکشاف کیا کہ ڈیٹا شیئرنگ میں اضافے کے وعدوں کے باوجود وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اب تک جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) کے لیے منفی اور مثبت فہرستوں کا تبادلہ نہیں کیا، جو آئی ایم ایف کے لیے تشویش کا باعث ہے، اے آئی ٹی 7 ارب ڈالر کی توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کا مرکزی موضوع ہے۔

ذرائع کے مطابق پنجاب نے ممکنہ اے آئی ٹی کے نفاذ میں ابتدائی پیشرفت کی ہے، جس کی وجہ بڑے پیمانے پر ڈیجیٹلائزڈ لینڈ ریکارڈ ہے، تاہم صوبے نے ٹیکس کی شرح کو گزشتہ سال منظور ہونے والے اے آئی ٹی قانون سے الگ کر دیا ہے۔

دریں اثنا، سندھ نے آئی ایم ایف مشن کو بتایا کہ اس کی اسمبلی نے سیاسی چیلنجز کے باوجود اے آئی ٹی قانون منظور کیا لیکن صوبہ اب تک وصولی کے لیے تیار نہیں، سندھ نے آئی ایم ایف سے آگے بڑھنے کے لیے رہنمائی کی درخواست کی جس کے بعد دیگر صوبوں کے ساتھ یکسانیت کے لیے بات چیت کی جا سکتی ہے۔

اس وقت پنجاب اور سندھ نے بالترتیب 12.5 ایکڑ اور 25 ایکڑ سے کم زرعی اراضی کو اے آئی ٹی سے مستثنیٰ قرار دیا ہے، دونوں صوبوں کو اپنی استثنیٰ کی حد کو آئی ایم ایف کی شمولیت اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی معاونت کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہوگا، تاہم اس حوالے سے اب بھی ابہام موجود ہے کہ ایف بی آر کس حد تک صوبائی ٹیکس حکام کی مدد کر سکتا ہے۔

خیبر پختونخوا کے نمائندوں نے بتایا کہ صوبے میں 75 سے 80 فیصد زراعت کم زمین کی وجہ سے اے آئی ٹی کی کوریج سے باہر ہے، کچھ زمیندار پنجاب کی جانب سے مقرر کردہ 12.5 ایکڑ کی حد کو پورا کرتے ہیں، مزید برآں 6 لاکھ روپے سے کم زرعی آمدنی ٹیکس سے مستثنیٰ رہے گی۔

اسی طرح بلوچستان نے نشاندہی کی کہ صوبے میں قابل ٹیکس زرعی آمدنی نہ ہونے کے برابر ہے۔

مجموعی طور پر چاروں صوبوں نے اے آئی ٹی کو مؤثر طریقے سے نافذ کرنے کے لیے اپنی محدود تکنیکی صلاحیت کو اجاگر کیا، یہ دیکھتے ہوئے کہ ایف بی آر خود نسبتاً اچھی طرح سے دستاویزی شہری شعبوں میں ٹیکس کی مکمل تعمیل کو یقینی بنانے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے، صوبائی ٹیکس ایجنسیاں ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہیں، دور دراز دیہی علاقوں میں مؤثر نفاذ حاصل کرنے کا امکان نہیں ہے۔

ان مذاکرات کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ آئی ایم ایف کو ایف بی آر کی مدد کے ساتھ ایک وسیع پالیسی فریم ورک فراہم کرنے کی ضرورت پڑسکتی ہے۔

تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کا بنیادی مؤقف یہ ہے کہ اے آئی ٹی کو آمدنی کے دیگر ذرائع پر ٹیکس کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے، ورکنگ پیپر میں 6 لاکھ روپے تک کی سالانہ آمدن پر اے آئی ٹی استثنیٰ اور 6 لاکھ سے 12 لاکھ روپے تک کی آمدن پر 15 فیصد ٹیکس کی تجویز دی گئی تھی۔

12 لاکھ سے 16 لاکھ روپے تک کی سالانہ آمدن پر 90 ہزار روپے کا فکسڈ ٹیکس اور 12 لاکھ روپے سے زائد آمدن پر 20 فیصد فکسڈ ٹیکس لاگو ہوگا۔ 16 لاکھ سے 32 لاکھ روپے تک کی آمدن پر ایک لاکھ 70 ہزار روپے اور 16 لاکھ روپے سے زائد آمدن پر 30 فیصد ٹیکس عائد کیا جائے گا، 32 لاکھ سے 56 لاکھ روپے تک کی آمدن پر 6 لاکھ 50 ہزار روپے اور 32 لاکھ روپے سے زائد کی آمدن پر 40 فیصد فکسڈ ٹیکس عائد ہوگا۔

گزشتہ سال جولائی میں طے پانے والے 7 ارب ڈالر کے ای ایف ایف کے تحت پاکستان نے ایف بی آر اور صوبائی ریونیو حکام کے درمیان ہفتہ وار بنیادوں پر معلومات کے تبادلے کو بہتر بنانے کا عہد کیا تھا۔

صوبائی ٹیکس اصلاحات میں اکتوبر 2024 تک وفاقی پرسنل اور کارپوریٹ انکم ٹیکسز کے ساتھ اے آئی ٹی نظام کو ہم آہنگ کرنا شامل ہے، جس پر عمل درآمد یکم جنوری 2025 کو مقرر کیا گیا ہے اور وصولی جولائی 2025 سے شروع ہوگی۔ مزید برآں، خدمات پر جی ایس ٹی مثبت فہرست سے منفی فہرست میں منتقل ہونے کے لیے تیار ہے۔

ایف بی آر سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے گا کہ صوبائی ریونیو اتھارٹیز کے ساتھ مفاہمت کی یادداشتوں (ایم او یوز) کے تحت تمام درخواست کردہ معلومات بشمول اے آئی ٹی اور جی ایس ٹی سروس کریڈٹ کلیمز کی تفصیلات بروقت فراہم کی جائیں۔

صوبوں نے سروسز جی ایس ٹی کو مثبت فہرست سے منفی لسٹ میں منتقل کرنے پر اتفاق کیا جس کا اطلاق مالی سال 26 کے آغاز سے ہوگا، اس تذویراتی تبدیلی کا مقصد شفافیت کو بڑھانا اور خامیوں کو کم سے کم کرنا ہے اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ تمام خدمات قابل ٹیکس ہیں جب تک کہ واضح طور پر استثنیٰ نہ دیا جائے۔

مشہور خبریں۔

پینٹاگون کی نظر میں یوکرین کی جنگ کیسے ختم ہوگی؟

🗓️ 7 ستمبر 2024سچ خبریں: امریکی وزیر دفاع لوئڈ آسٹن نے کہا ہے کہ یوکرین

افغانستان سے امریکی انخلا جرات مندانہ نہیں تھا: میئر کابل

🗓️ 17 اگست 2021سچ خبریں:کابل کے میئر نے ایک صیہونی ذرائع ابلاغ کو انٹرویو دیتے

پنجاب حکومت سے انارکلی دھماکے کی رپورٹ طلب کرلی ہے

🗓️ 20 جنوری 2022اسلام آباد (سچ خبریں) وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا ہے

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے مقبوضہ کشمیر پر اہم میٹنگ، گپکار الائنس نے بڑا اعلان کردیا

🗓️ 22 جون 2021سرینگر (سچ خبریں) بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے مقبوضہ

مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارت کے ظالمانہ ہتھکنڈوں سے اس کا جمہوری چہرہ بے نقاب ہوتا ہے

🗓️ 15 ستمبر 2024اسلام آباد: (سچ خبریں) غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ

پاکستانی عوام نے صیہونیوں کا سامان پھینکا

🗓️ 12 جون 2024سچ خبریں: پاکستانی شہریوں کے ایک گروپ نے صہیونی سامان کو ان

بیروت کے لیے امریکہ کا خطرناک جال

🗓️ 13 مارچ 2025سچ خبریں: صیہونی حکومت کے ساتھ ملک کی حالیہ جنگ کے بعد لبنان

ججز پر تنقید ہونی چاہیے لیکن تعمیراتی تنقید ہو، چیف جسٹس

🗓️ 13 جنوری 2025 اسلام آباد: (سچ خبریں) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے