خیبر پختونخواہ:(سچ خبریں) خیبر پختونخواہ میں سیلاب سے ہلاکتوں اور تباہی کا سلسلہ ہفتے کے روز بھی جاری رہا جہاں سوات میں لینڈ سلائیڈنگ اور سیلاب کے نتیجے میں مزید 3 افراد ہلاک ہو گئے جبکہ نوشہرہ میں حکام نے دریائے کابل میں انتہائی اونچے درجے کے سیلاب کے سبب عوام سے انخلا کی اپیل کی ہے۔
غیر معمولی بارشوں کے پیش نظر صوبے کے متعدد علاقوں میں رین ریمرجنسی نافذ کردی گئی ہے جہاں ان بارشوں اور سیلاب نے ملک کے بیشتر حصوں کو بحران میں دھکیل دیا ہے۔
آج ہونے والی اہم پیشرفت
- سوات میں سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ سے مزید 3 افراد جاں بحق، ہلاکتوں کی تعداد 15 ہوگئی
- نوشہرہ میں ‘انتہائی اونچے سیلاب’ کے سبب خیبر پختونخوا کے کئی علاقوں سے انخلا جاری ہے۔
- دریائے کابل میں پانی کی سطح 3لاکھ کیوسک سے بڑھ گئی۔
- لوئر دیر میں 15 سیاح پھنسے ہوئے ہیں۔
- وزیر اعظم شہباز شریف سندھ کے ضلع سجاول پہنچ گئے اور امدادی سرگرمیوں کا جائزہ لیا۔
- آرمی چیف آج سندھ کے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کریں گے۔
- خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ آج سوات، لوئر دیر میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کریں گے۔
اس وقت پاکستان کا نصف سے زیادہ حصہ زیر آب ہے اور مون سون کی غیر معمولی بارشوں سے پیدا ہونے والے سیلاب کے نتیجے میں لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔
تازہ ترین اندازوں کے مطابق تقریباً 300 بچوں سمیت 1ہزار افراد بارشوں اور اس کے نتیجے میں آنے والے سیلاب کی وجہ سے اپنی جانیں گنوا چکے ہیں جہاں اب تک سیلاب اور بارشوں سے تقریبا 3 کروڑ 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔
سوات میں رین ایمرجنسی کے اعلان کے ایک دن بعد ہفتے کو ضلع کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ابرار وزیر نے بتایا کہ مختلف علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ اور سیلاب سے مجموعی طور پر 15 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
جمعہ کو ضلع میں بارشوں، سیلاب اور متعلقہ واقعات سے 12 اموات ہوئی تھیں۔
ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر نے آج ایک بیان میں کہا کہ سیلاب سے اب تک 130 کلومیٹر پر پھیلی سڑکوں کو نقصان پہنچا ہے اور 15 پل مکمل طور پر تباہ ہوچکے ہیں جبکہ 100 سے زائد مکانات اور 50 کے قریب ہوٹل اور ریسٹورنٹ بھی تباہ ہوئے ہیں۔
اہلکار نے بتایا کہ مزید نقصان کی حد کا اندازہ لگانے کے لیے ایک ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔
لوئر دیر کے ایک سابق رکن صوبائی اسمبلی محمد علی نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ وادی کمراٹ میں تقریباً 15 سیاح پھنسے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملاکنڈ کے کمشنر سیاحوں کو دوسری جگہ منتقل کرنے کے لیے ہیلی کاپٹر بھیج رہے ہیں۔
لوئر دیر میں بھی کئی دیگر سیاحوں کے پھنسے ہونے کی اطلاعات ہیں۔
نوشہرہ میں اونچے درجے کا سیلاب
ملک بھر میں ہونے والے تباہ کن بارشوں کے بعد آنے والے سیلاب کے نتیجے میں دریائے کابل میں پانی کا بہاؤ تین لاکھ کیوسک سے زیادہ ہونے کے سبب دریا میں انتہائی اونچے درجے کا سیلاب آ گیا ہے اور نوشہرہ کے ڈپٹی کمشنر میر رضا اوزگن نے ہفتے کے روز ضلع کے مکینوں سے ایک مرتبہ پھر محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کی اپیل کی ہے۔
ڈان نیوز ٹی وی کے مطابق سیلاب نے ضلع میں بڑے پیمانے پر تباہی مچا دی اور کئی دیہات زیر آب آ گئے۔
جمعہ کو صوبہ خیبر پختونخواہ صوبے کے کچھ حصوں میں تباہی ہوئی کیونکہ دریائے کابل اور دریائے سوات میں ‘انتہائی اونچے درجے کے سیلاب’ کا سامنا کرنا پڑا، جس سے حکام نے نشیبی علاقوں سے انخلا کا عمل شروع کر دیا اور سوات اور دیگر اضلاع میں ہنگامی حالت نافذ کردی گئی ہے۔
اس کے بعد دریاؤں میں پانی کی سطح بلند ہونے اور دریائے سوات کے بہاؤ کو منظم کرنے والے منڈا ہیڈ ورکس کا ایک حصہ گرنے کے سبب سیلاب کے بڑھتے ہوئے خطرے کو مدنظر رکھتے ہوئے نوشہرہ اور چارسدہ سے مکینوں کے انخلا کے لیے اعلانات کیے جا رہے ہین جبکہ اس سلسلے میں حکام بھی کوششیں کررہے ہیں۔
نوشہرہ کے ڈپٹی کمشنر نے آج صبح دوبارہ انخلا کی اپیل کی، ایک بیان میں کہا کہ ضلع میں دریائے کابل میں بہت اونچے درجے کا سیلاب آیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ نوشہرہ میں دریائے کابل میں پانی کی سطح ڈھائی لاکھ کیوسک سے تجاوز کر گئی ہے، پانی کی سطح مزید بڑھ رہی ہے۔
خیبر پختونخوا میں صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ نوشہرہ میں دریا میں پانی کی سطح دو لاکھ 74ہزار 274 کیوسک تک بلند ہو چکی ہے، ویرک میں دریا کی سطح آب ایک لاکھ 30 ہزار 364 کیوسک کیوسک تک پہنچ گئی ہے۔
ادھر ڈپٹی کمشنر نوشہرہ نے شہریوں سے محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ سیلاب سے متاثرہ لوگوں کے لیے امدادی کیمپ قائم کیے گئے ہیں اور انہیں وہاں منتقل ہونے کی تاکید کی گئی ہے۔
جمعہ کو دریائے کابل اور دریائے سوات میں بہت سے مقامات پر ‘انتہائی اونچے درجے کے سیلاب کے سبب خیبر پختونخوا کے کئی دیگر علاقوں میں بھی انخلا شروع کر دیا گیا ہے۔
ضلعی انتظامیہ کے ایک اہلکار نے ڈان کو بتایا کہ جمعہ کی رات تک چارسدہ میں تقریباً 2لاکھ افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔
دوپہر کے وقت سیلابی پانی ضلع کے پیرسباق علاقے میں داخل ہوا جس کے بعد ضلعی انتظامیہ نے شہریوں سے ایک بار پھر نقل مکانی کی اپیل کی۔
نوشہرہ کی ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر قرۃ العین وزیر نے فون پر ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ وہ فوج اور ریسکیو ٹیم کے ساتھ علاقے میں موجود ہیں اور انہوں نے انخلا شروع کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت تک 50 خاندانوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے۔
ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر نے مزید کہا کہ پیرسباق میں دریائے کابل کے کنارے حفاظتی پشتے ٹوٹ گئے ہیں جس کے نتیجے میں پانی گھروں اور بازاروں میں داخل ہو گیا ہے۔
دیگر علاقوں کے بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کل رات سے انخلا کا عمل جاری ہے اور اب تک پشتون گاڑی کے علاقے سے 700 خاندانوں کو امدادی کیمپ میں منتقل کیا جا چکا ہے جبکہ پبی سے مزید 300 کو نکالا جا چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری اولین ترجیح جان بچانے کے لیے امدادی کارروائیاں ہیں، انتظامیہ نے سیلاب سے متاثرہ افراد کو خوراک کے پیکج اور دیگر امدادی اشیا بھی فراہم کی ہیں۔
خیبر پختونخوا کے کئی دیگر علاقوں سے انخلا کا عمل جمعہ کو شروع کردیا گیا تھا کیونکہ انہوں نے دریائے کابل اور دریائے سوات میں بہت سے مقامات پر اونچے درجے کے سیلاب کا سامنا کرتے ہوئے شدید تباہی کا سامنا کیا۔
ضلعی انتظامیہ کے ایک اہلکار نے اس وقت ڈان کو بتایا کہ چارسدہ میں جمعہ کی رات تک تقریباً 2لاکھ افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا تھا۔
خیبر پختونخوا کے وزیر خزانہ تیمور خان جھگڑا نے آج مقامی رہنماؤں کے ہمراہ چارسدہ کا دورہ کیا۔
ایک ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ ضلع سے ایک لاکھ 83ہزار افراد کو نکالا جا چکا ہے، نوشہرہ میں بھی اسی طرح کا آپریشن جاری ہے۔
پی ٹی آئی کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ایک ٹوئٹ میں کہا گیا ہے کہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان آج سوات اور لوئر دیر کے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ بھی کریں گے۔
وہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات اور جاری امدادی سرگرمیوں کا جائزہ لیں گے۔
ریسکیو 1122 کے مطابق پشاور میں ہفتہ کو بھی ریلیف اور ریسکیو آپریشن جاری رہا۔
ریسکیو 1122 کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ شہر میں سیلاب سے میاں گجر، جالا بیلہ، تخت آباد اور دیگر علاقے متاثر ہوئے ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ریسکیو 1122 کی جانب سے پشاور اسلام آباد موٹر وے پر ایک ریلیف کیمپ لگایا گیا ہے۔
جمعہ کی رات تک صوبے میں بارشوں سے آنے والے سیلاب سے مرنے والوں کی تعداد 42 ریکارڈ کی گئی۔
صوبائی حکومت نے ہفتے کے روز ٹوئٹ میں کہا کہ پنجاب کے شہر ڈیرہ غازی خان میں ریسکیو 1122 کی ٹیموں نے پانی گھروں میں داخل ہونے کے بعد کشتیوں میں لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا۔
اس حوالے سے مزید کہا گیا کہ انتظامیہ سیلاب متاثرین کی امداد کے لیے تمام وسائل بروئے کار لا رہی ہے۔
بلوچستان کی صورتحال
بلوچستان میں بھی صورتحال مختلف نہیں تھی جہاں صوبے کو اس سال مون سون کی تباہ کن بارشوں کے نتیجے میں سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
بلوچستان کو دوسرے صوبوں سے ملانے والی شاہراہیں جمعہ کو غیر فعال رہیں کیونکہ مسلسل بارشوں اور سیلاب نے حکام کو تباہ شدہ راستوں کی مرمت کرنے کی اجازت نہیں دی۔
ادھر دریائے بولان میں طغیانی کے باعث کوئٹہ-سکھر شاہراہ پر ایک اور پل کو بھی نقصان پہنچا۔
کوئٹہ اور اس کے مضافات میں 36 گھنٹے تک جاری رہنے والی بارش کے باعث صوبائی دارالحکومت کے بیشتر علاقے زیر آب آگئے جس سے نظام زندگی ٹھپ ہو کر رہ گیا اور سینکڑوں خاندان بے گھر ہو گئے۔
نواں کلی، چشمہ اچوزئی، پشتون آباد، ہزارہ ٹاؤن، فیصل ٹاؤن، سریاب کے مختلف علاقوں، سبزل روڈ اور مغربی اور مشرقی بائی پاس کے علاقوں میں سیلابی پانی نے لوگوں کو گھروں سے نکلنے پر مجبور کردیا۔
نصیر آباد ڈویژن میں صورتحال مزید بگڑ گئی کیونکہ بولان، لہری اور ناری ندیاں نصیر آباد، جعفرآباد، جھل مگسی اور صحبت پور اضلاع میں حفاظتی بند سے ٹکرا گئیں، صابری ڈیم ٹوٹنے سے کم از کم 100 دیہات زیر آب آگئے۔
صوبے کی مشکلات میں اس وقت مزید اضافہ ہو گیا جب دارالحکومت کو ایل پی جی کی شدت قلت کا سامنا ہے کیونکہ حکام جمعہ کو دریائے بولان میں سیلاب سے بہہ جانے والی گیس کی دو پائپ لائنوں کی مرمت نہیں کر سکے۔
کوئٹہ اور بلوچستان کے دیگر قصبوں کو گیس سپلائی کرنے والی 12 انچ قطر کی پائپ لائن ضلع بولان کے علاقے بی بی نانی کے قریب بہہ گئی جہاں اس سے قبل گزشتہ ہفتے 24 انچ کی مین پائپ لائن بھی سیلاب میں بہہ گئی تھی۔
اس کے بعد لوگوں کی لمبی قطاریں ایل پی جی ڈیلرز کی دکانوں کے باہر دیکھی گئیں۔
ایک رہائشی طارق علی نے ڈان کو بتایا کہ ہم یہاں دو گھنٹے سے لمبی قطار میں ہیں لیکن گیس دستیاب نہیں ہے۔
دکانداروں کا کہنا تھا کہ وہ مارکیٹ میں ایل پی جی کی کمی کی وجہ سے ایل پی جی ڈیلرز کو اضافی رقم ادا کر رہے ہیں، ڈیلرز ایران اور کراچی سے گیس درآمد کر رہے تھے لیکن شاہراہوں کی بندش کے باعث ایل پی جی کی سپلائی معطل ہو گئی ہے۔
موسلا دھار بارشوں کے باعث بلوچستان کے کئی علاقوں میں ٹیلی فون اور انٹرنیٹ سروس درہم برہم ہوگئی۔ جمعہ کی رات تک صوبے کے 10 اضلاع میں خدمات جزوی طور پر بحال کر دی گئیں۔
بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب نے ملک کے کئی حصوں میں کئی ہفتوں سے تباہی مچا رکھی ہے اور جمعہ کو صورتحال مزید خراب ہونے پر حکومت نے آفت زدہ علاقوں میں امدادی کارروائیوں میں سویلین حکام کی مدد کے لیے تمام صوبوں میں فوج کو تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس سلسلے میں جاری کردہ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ فوجیوں کی صحیح تعداد اور تعیناتی کے علاقوں کا تعین متعلقہ صوبائی حکومتیں ملٹری آپریشنز ڈائریکٹوریٹ اور جنرل ہیڈ کوارٹرز کی مشاورت سے کریں گی۔
نوٹیفکیشن میں لکھا گیا ہے کہ مذکورہ تعیناتی کی ڈی ریکوزیشن کی تاریخ کا فیصلہ تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان باہمی مشاورت کے بعد کیا جائے گا۔
دریں اثنا، خراب موسم کی وجہ سے جمعہ کو ملک کے کئی علاقوں میں فلائٹ اور ٹرین آپریشن معطل رہے۔
حکومت نے تباہی سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی مدد طلب کی ہے اور جب کہ کئی عالمی اداروں اور ممالک نے امدادی کاموں کے لیے فنڈز دینے کا وعدہ کیا ہے البتہ حکومت کی اپیل پر بین الاقوامی برادری کا ردعمل اب تک سست رہا ہے۔