اسلام آباد:(سچ خبریں) پوسٹ ڈزاسٹر نیڈز اسیسمنٹ (پی ڈی این اے) کی طرف سے سیلاب کے حوالے سے جاری کی گئی ضمنی رپورٹ کے مطابق آفت زدہ علاقوں میں اضافی 19 لاکھ گھرانوں اور تقریباً ایک کروڑ 21 لاکھ افراد کے کثیر الجہتی غربت کا شکار ہونے کا خدشہ ہے۔
پی ڈی این اے نے تخمینہ لگایا ہے کہ چاروں صوبوں کے آفت زدہ علاقوں میں ایک کروڑ 21 لاکھ افراد اور 19 لاکھ گھرانوں کو صحت، صفائی ستھرائی، حمل کے دوران معیاری دیکھ بھال، بجلی اور اپنے اثاثوں کے نقصان سے واضح طور پر بڑھتی ہوئی محرومیوں کا سامان کرنا ہوگا۔
گزشتہ روز جاری ہونے والی ضمنی رپورٹ کے مطابق آفت زدہ اضلاع میں کثیر الجہتی غربت 37 اعشاریہ 8 سے بڑھ کر 43 اعشاریہ 7 فیصد تک پہنچنے کا امکان ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سندھ میں غیر مالیاتی غربت میں گھرانوں کا اعداد و شمار سب سے زیادہ یعنی 48 لاکھ ہوگا اور اس کے بعد خیبرپختونخوا میں 46 لاکھ، پنجاب اور اور بلوچستان میں 12 لاکھ گھرانوں کا غیر مالیاتی غربت سے متاثر ہونے کا امکان ہے۔
تاہم مجموعی طور پر سب سے زیادہ غربت بلوچستان میں ہوگی جس کا تخمینہ 81 اعشاریہ 1 فیصد اس کے بعد خیبرپختونخوا میں 60 اعشاریہ 6 فیصد اور تسیرے نمبر پر سندھ میں 54 اعشاریہ 9 فیصد غربت ہوگی۔
رپورٹ کے مطابق دیہی علاقوں کے سیلاب زدہ علاقوں میں 87 سے 91 فیصد گھر لوگوں کی ذاتی ملکیت ہے لیکن شہری علاقوں میں 18 سے 31 فیصد گھر کرائے پر لیے ہوئے تھے۔
اسی طرح خواتین کی سربراہی میں چلنے والے گھروں کی تعداد بلوچستان کے دیہی علاقوں میں 4 فیصد اور سندھ کے شہری علاقوں میں 11 فیصد ہے۔
پلاننگ کمیشن کی سربراہی اور ایشیائی ترقیاتی بینک، یورپی یونین اور اقوام متحدہ کی معاونت سے تیار کردہ ضمنی رپورٹ میں انسانی اثرات کی تشخیص اور مکمل 17 شعبوں کی تشخیص کا تجزیہ کیا گیا ہے۔
پی ڈی این اے کی ضمنی رپورٹ سندھ، بلوچستان، پنجاب اور خیبرپختونخوا کے 94 آفت زدہ علاقوں پر مشتمل ہے جس میں 11 اکتوبر تک نقصان کا تخمینہ شامل کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق قومی سطح پر کثیر الجہتی غربت کا تخمینہ ظاہر کرتا ہے کہ آفت زدہ اضلاع میں متاثرہ آبادی 11.3 فیصد سے بڑھ کر 15.5 فیصد ہو جائے گی جس سے اضافی 15 لاکھ گھرانے متاثر ہوں گے جو کہ پانی کے بہتر ذرائع تک رسائی سے محروم ہوں گے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پینے کے صاف پانی تک محدود رسائی کی وجہ سے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں اور انفیکشنز کا خطرہ بڑھنے کا امکان ہے، جس سے صحت کی مسائل پر بہت زیادہ دباؤ پڑے گا اور بیماری اور غربت کا سلسلہ جاری رہے گا۔
اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ آفت زدہ علاقوں میں غذائی قلت کا سامنا کرنے والی آبادی 70 لاکھ سے بڑھ کر ایک کروڑ 46 لاکھ تک پہنچ جائے گی جہاں غذائی امداد کے ضرورت مندوں کی اضافی تعداد سندھ میں سب سے زیادہ یعنی 43 لاکھ ہے اور دوسرے نمبر پر خیبرپختونخوا میں 17 لاکھ جبکہ پنجاب میں 90 ہزار اور بلوچستان میں 80 ہزاراضافی لوگوں کو غذائی امداد کی ضرورت ہے۔
سب سے زیادہ متاثر ہونے والی آبادی پسماندہ غریب لوگوں کی ہے جو مزدوری/زرعی اجرت پر منحصر ہیں، اس کے علاوہ معذور افراد، اور چھوٹے آبادگار شامل ہیں جو اپنی کاشت کاری دوبارہ شروع کرنے کے لیے زرعی سامان خریدنے کے متحمل نہیں ہیں۔
رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ ربی کی فصل خاص طور پر گندم کی اگائی میں تاخیر کی وجہ سے پہلے ہی غذائی قلت کی صورتحال مزید خراب ہونے کا امکان ہے۔
رپورٹ کے مطابق خوراک کی قلت اور پینے کے صاف پانی اور صفائی ستھرائی تک رسائی سے محرومی سے ہونے والی وسیع بیماریاں طویل مدت میں ترقی کی شرح پر واضح اثر ڈالیں گی۔