اسلام آباد: (سچ خبریں) سپریم کورٹ نے عدالتی معاملات میں ’انٹیلی جنس ایجنسیوں‘ کی مداخلت کے الزامات کی تحقیقات کے لیے دائر تمام 10 درخواستوں کو یکجا کر دیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیر سربراہی بینچ میں جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان شامل ہیں، جسٹس یحییٰ آفریدی نے دو صفحات پر مشتمل نوٹ میں بینچ میں شامل ہونے سے معذرت کر لی تھی، اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے خط پر از خود نوٹس کیس سماعت کیلئے 30 اپریل کو مقرر کیا گیا ہے۔
پاکستان بار کونسل کے 6 اراکین کی جانب سے دائر ایک درخواست بطور فریق شامل ہونے سے متعلق ہے، جس میں ہائیکورٹ کے ججز کے خط میں لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا گیا۔
لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے آئینی درخواستوں میں سپریم کورٹ کے ججز کی جانب سے جوڈیشل انکوائری کرانے کی بھی استدعا کی گئی، بیرسٹر اعتزاز احسن نے سپریم کورٹ کے ججز سے جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کیا، جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا، اسی طرح بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور ایڈووکیٹ شہباز علی خان کھوسہ نے بھی انکوائری کی درخواست کی تھی۔
ایک درخواست میں بیرسٹر اعتزاز احسن نے اپنے وکیل خواجہ احمد حسین کے توسط سے سپریم کورٹ سے استدعا کی تھی کہ وہ یہ اعلان کرے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے علاوہ جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی کے الزامات اس بات کا ثبوت ہیں کہ انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور اس کے کارندے وفاقی دارالحکومت میں اسلام آباد ہائی کورٹ اور ضلعی عدلیہ کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی غیر قانونی کوششوں میں ملوث رہے، یہ ایک ایسی پیش رفت ہے جس کی عدالتی تحقیقات کی ضرورت ہے۔
جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی نے انکوائری کمیشن کی سربراہی سے معذرت کر لی تھی، جس کے بعد سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لے لیا تھا۔
واضح رہے کہ 25 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز نے ججز کے کام میں خفیہ ایجنسیوں کی مبینہ مداخلت اور دباؤ میں لانے سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا تھا۔
یہ خط اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس سمن رفت امتیاز کی جانب سے لکھا گیا۔
ججز کے خط پر سپریم کورٹ نے دو فل کورٹ اجلاس منعقد کیے جن میں اس معاملے پر غور کیا گیا، بعد میں چیف جسٹس پاکستان نے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی۔
اس ملاقات کے بعد 30 مارچ کو ایک رکنی انکوائری کمیشن بنانے کی منظوری دے دی گئی تھی، اور جسٹس (ر) تصدق جیلانی کو کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔
وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد جاری اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ اجلاس نے 25 مارچ 2024 کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 معزز جج صاحبان کی جانب سے لکھے گئے خط کے مندرجات پر تفصیلی غور کیا۔
اجلاس کو بتایاگیا تھا کہ سپریم کورٹ کے فل کورٹ اعلامیے کے مطابق عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی وزیر اعظم سے ملاقات میں انکوائری کمیشن کی تشکیل تجویز ہوئی تھی۔
تاہم بعد میں جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی نے انکوائری کمیشن کی سربراہی سے معذرت کر لی جس کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کے خط کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے 7 رکنی لارجر بینچ تشکیل دے دیا تھا۔