کراچی(سچ خبریں) سابق چیف سیکریٹری اور انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) سمیت حکومت سندھ کے تقریباً 600 حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسران قومی احتساب بیورو (نیب) کے دائر کردہ 108 کرپشن ریفرنسز میں مقدمات کی کارروائی کا سامنا کر رہے ہیں۔
سابق چیف سیکریٹری محمد صدیق میمن اور سابق آئی جی غلام حیدر جمالی صوبے کی احتساب عدالتوں میں چلنے والے مقدمات کی کارروائی کا سامنا کرنے والے ملزمان میں شامل ہیں۔
عدالتی حکم پر نیب سندھ کی تیار کردہ ایک رپورٹ کے مطابق صوبے کی احتساب عدالتوں میں 580 سے زائد ملزمان کے خلاف 108 ریفرنسز دائر ہیں۔
رپورٹ کے مطابق حکومت سندھ کے مختلف محکموں میں کام کرنے والے 494 افسران نے رضاکارانہ طور پر لوٹی ہوئی دولت واپس کرنے جبکہ 41 نے نیب کے کرپشن کیسز میں پلی بارگین کا انتخاب کیا۔
سابق چیف سیکریٹری اور ایڈیشنل سیکریٹری عبدالقادر میمن اور لینڈ یوٹیلائزیشن کمیٹی کے کچھ سینیئر افسران اسکیم 33 کوریڈر کے سیکٹر 52-اے میں 6 ایکڑ اراضی کی رہائشی اور تجارتی مقصد کے لیے غیر قانونی ریگولرائزیشن اور الاٹمنٹ پر 2018 میں دائر کردہ ریفرنس کا سامنا کر رہے ہیں جس سے قومی خزانے کو 55 لاکھ روپے کا نقصان پہنچا۔
نیب کے مطابق جب اراضی غیر قانونی طور پر الاٹ کی گئی اس وقت چیف سیکریٹری صدیق میمن لینڈ یوٹیلائزیشن کے سیکریٹری تھے۔
علاوہ ازیں نیب نے سابق آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی، اس وقت کے اے آئی جی فنانس سید فدا حسین شاہ، سابق اے آئی جی (لاجسٹک) تنویر احمد طاہر، ایک اور سابق اے آئی جی (لاجسٹک) کامران راشد، سابق اے آئی جی فیصل بشیر میمن اور تقریباً 10 دیگر افراد کے خلاف سال 14-2013 کے دوران سندھ ریزرو پولیس (ایس آر پی) حیدر آباد میں اختیارات کے غلط استعمال کا ریفرنس دائر کیا تھا جس سے قومی خزانے کو 50 کروڑ روپے کا نقصان پہنچا۔
اس وقت کے صوبائی سیکریٹری بدر جمیل مندھرو کے ساتھ اس وقت کے ڈائریکٹر خادم حسین چنہ، ڈپٹی ڈائریکٹر شمس الدین شیخ اور کئی دیگر افسران کو 2015 میں محکمہ اقلیتی امور میں مبینہ غیر قانونی تقرریوں کے حوالے سے دائر ایک ریفرنس میں ٹرائل کا سامنا ہے۔
سابق سیکریٹری بلدیاتی حکومت علی احمد لُنڈ اور دیگر کے خلاف 22 کروڑ 50 لاکھ روپے کے منقولہ اور غیر منقولہ اثاثے جمع کرنے پر سال 2015 میں ریفرنس دائر کیا گیا تھا۔
سابق سیکریٹری ٹرانسپورٹ اقبال احمد بالیانی اور دیگر کے خلاف سرکاری فنڈز کے مبینہ غبن سے متعلق 2016 میں دائر کیا گیا ایک ریفرنس بھی زیر سماعت ہے۔
اس کے علاوہ سابق لینڈ یوٹیلائزیشن سیکریٹری آفتاب احمد میمن کو زمین کی غیر قانونی الاٹمنٹ کے سلسلے میں 2016 میں دائر ریفرنس کا سامنا ہے۔
سندھ کے موجودہ انفارمیشن سیکریٹری عبدالرشید سولنگی پر محکمہ مائنز اینڈ منرلز میں بطور ڈائریکٹر جنرل تعیناتی کے دوران لاکھڑا، جامشورو سے کوئلے کی غیر قانونی کان کنی کروانے کا الزام ہے جس پر 2016 میں ریفرنس دائر ہوا تھا۔
رپورٹ کے مطابق حکومت سندھ کے مختلف محکموں میں تعینات 494 افسران نے کرپشن مقدمات میں نیب کو لوٹی ہوئی دولت ’رضاکارانہ طور پر واپس‘ کرنے کا انتخاب کیا۔
اس میں سب سے زیادہ محکمہ تعلیم کے افسران شامل ہیں جن کی تعداد 310 ہے جنہوں نے رضاکارانہ واپسی اسکیم سے فائدہ اٹھایا۔
محکمہ بلدیات کے 50 سے زائد، محکمہ آبپاشی اور خوراک کے 25، 25 محکمہ فنانس اینڈ ورکس کے 15، 15 پولیس، صوبائی روڈز، فنانس، پبلک ہیلتھ اور جنگلات کے متعدد افسران نے بھی رضاکارانہ طور پر رقوم واپس کیں۔
علاوہ سابق سیکریٹری صحت عاشق حسین میمن نے 2005 میں وی آر کے ذریعے 2 کروڑ 50 لاکھ روپے واپس کیے۔سابق سیکریٹری لیبر اور کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے تین ڈپٹی ڈائریکٹرز سمیت صوبائی حکومت کے 41 افسران نے نیب کے ساتھ پلی بارگین کی۔
سابق سیکریٹری لیبر ناصرحیات نے 2018 میں سندھ ورکرز ویلفیئر بورڈ کے لیے ناردرن بائی پاس کے قریب 3 ہزار فلیٹس کی تعمیر کے لیے اراضی کے حصول سے متعلق کیس میں ایک کروڑ 80 لاکھ روپے سے زائد رقم جمع کرائی تھی۔
اس کے علاوہ کے ایم سی کے تین افسران، حضور بخش کلواڑ، ان کی اہلیہ شمع خاتون اور ان کے بیٹے سجاد کلواڑ نے مشترکہ طور پر 2004 میں پلی بارگین کی تھی اور 16 کروڑ روپے سے زائد رقم واپس کی تھی۔