خیبر پختونخوا:(سچ خبریں) خیبر پختونخوا کے خلع خیبر میں طورخم کے مقام پر پاکستان اور افغانستان کی سرحدی فورسز کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں فرنٹیئر کور (ایف سی) کے اہلکار سمیت کم از کم 2 افراد زخمی ہو گئے جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان مصروف ترین تجارتی گزرگاہ کو بند کردیا گیا۔
فائرنگ تقریباً دو گھنٹے تک جاری رہی پاکستانی حکام نے افغانستان کی جانب سے فائرنگ شروع کرنے کا الزام لگایا۔
فائرنگ کا واقعہ افغان حکام کی جانب سے مرکزی سرحدی گزر گاہ کے قریب ممنوعہ علاقے میں اپنی طرف چیک پوائنٹ کی تعمیر شروع کیے جانے کے بعد پیش آیا۔
پاکستانی حکام نے بتایا کہ اس علاقے میں افغان حکام کی چیک پوائنٹ پہلے ہی موجود ہے جسے لارم پوسٹ کے نام سے جانا جاتا ہے لیکن انہوں نے پاکستانی حکام سے بات چیت کیے بغیر چھوٹی پہاڑی پر ایک اور چوکی کی تعمیر شروع کر دی۔
حکام کا کہنا تھا کہ بارڈر سیکیورٹی حکام نے فائرنگ شروع ہونے سے کچھ منٹ قبل بھی ایک میٹنگ کی تھی۔
تاہم یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ میٹنگ کا ایجنڈا کیا تھا اور کس بات پر دونوں ممالک کی سرحدی فورسز کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ شروع ہوا۔
ایف سی اہلکار کے علاوہ ایک کسٹم کلیئرنگ ایجنٹ بھی اس وقت شدید زخمی ہو گیا جب کہ فائرنگ شروع ہونے کے بعد ایک تیز رفتار گاڑی نے اسے ٹکر مار دی۔
طورخم پر تعینات کسٹم ایجنٹ جمشید خان نے ڈان کو بتایا کہ فائرنگ شروع ہوتے ہی طورخم بارڈر کراسنگ کے قریب موجود ہر شخص نے فوری طور پر اپنے کام کی جگہیں چھوڑ دیں اور چھپنے کے لیے بھاگا۔
انہوں نے کہا کہ یہ واضح نہیں ہے کہ فائرنگ کس جانب سے شروع کی گئی، پہلے ہم نے چھوٹے ہتھیاروں سے کی گئی فائرنگ کی آواز سنی اور پھر دونوں جانب سے بھاری ہتھیاروں کا بھی استعمال کیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس واقعے سے کلیئرنگ ایجنٹس، ٹرانسپورٹرز اور عام لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا اور وہاں موجود گاڑیوں کے ڈرائیور فرار ہونے کی کوشش کرنے لگے۔
پاکستان میں مقامی انتظامیہ کے ایک عہدیدار ارشاد مہمند نے اے ایف پی کو بتایا کہ افغان فورسز نے ایسے علاقے میں چیک پوائنٹ قائم کرنے کی کوشش کی جہاں دونوں فریق کی جانب سے کوئی چوکی قائم نہ کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی جانب سے اعتراض کے بعد افغان فورسز نے فائرنگ کی جس کے بعد پاکستانی سرحدی فورسز نے جوابی فائرنگ کی۔
افغان طالبان حکومت نے پاکستان پر واقعہ کا الزام عائد کیا، افغانستان کے مشرقی صوبہ ننگرہار میں انفارمیشن اینڈ کلچر ڈائریکٹوریٹ کے ایک عہدیدار قریشی بدلون نے کہا کہ پاکستانی فورسز نے افغانی حکام پر اس وقت حملہ کیا جب افغان فورسز نے ایکسیویٹر کے ذریعے اپنی پرانی چوکی کو دوبارہ فعال کرنا چاہا۔“
انہوں نے کہا کہ حملے کے نتیجے میں جانی نقصان ہوا لیکن تاحال صحیح اعداد و شمار معلوم نہیں ہیں۔
طالبان حکومت کی وزارت داخلہ کے ترجمان عبدالمتین قانی نے کہا کہ جھڑپ کی وجوہات اور اس طرح کے واقعات کے اعادے کو روکنے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔
پاکستانی پولیس اہلکار نے خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ بدھ کی دوپہر تک فائرنگ کا سلسلہ رک گیا لیکن سرحد بند رہی، ”ماحول کشیدہ ہے“ اور “دونوں جانب کی افواج چوکس ہیں۔
طورخم بارڈر ایک اہم تجارتی راستہ ہے جہاں سے افغانستان کوئلے کے ٹرک برآمد کرتا ہے اور پاکستان سے خوراک و دیگر سامان برآمد کرتا ہے۔
حالیہ برسوں کے دوران بارڈر کئی بار بند کیا گیا جس میں فروری کی بندش بھی شامل ہے جس میں سامان سے لدے ہزاروں ٹرک کئی روز تک بارڈر کے اطراف پھنسے رہے۔
دونوں ممالک شدید معاشی مشکلات کا شکار ہیں، افغانستان امریکی حمایت حکومت کے خاتمے کے بعد امداد میں کمی کا شکار ہے جب کہ پاکستان اندورنی مسائل اور ہوش ربا مہنگائی سے نبرد آزما ہے۔