اسلام آباد: (سچ خبریں) آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت قائم خصوصی عدالت نے سابق وزیر اعظم و چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس میں فرد جرم عائد کردی۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین نے چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے خلاف اڈیالہ جیل میں سائفر کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران سابق وزیراعظم اور سابق وزیر خارجہ پر جرم عائد کی گئی جب کہ دونوں ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا ہے۔
عدالت نے ٹرائل کا باقاعدہ آغاز کرتے ہوئے 27 اکتوبر کو گواہان کو طلب کرلیا۔
اڈیالہ جیل راولپنڈی کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایف آئی اے کے اسپیشل پراسیکیوٹر شاہ خاور نے بتایا کہ چالان کی نقول تقسیم کرنے کے حوالے سے آج بھی وکلا کی جانب سے بحث کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ آج کا دن فرد جرم عائد کرنے کے لیے مقرر تھا، اوپن کورٹ میں فرد جرم پڑھ کر سنائی گئی، فرد جرم سنتے وقت چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی عدالت میں موجود تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ سائفر کیس کی آئندہ سماعت 27 اکتوبر کے لیے مقرر کی گئی ہے، اگلی سماعت پر استغاثہ کے گواہان کو عدالت نے طلب کرلیا ہے۔
دوسری جانب چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل ایڈووکیٹ عمیر نیازی نے میڈیا کو بتایا کہ ان کے مؤکل نے صحت جرم سے انکار کیا ہے، انہوں نے کہا کہ عدالتی حکم کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات پر سوال اٹھایا ہے، وکیل نے چیئرمین پی ٹی آئی کا حوالہ دیتے کہا کہ ان کے خلاف سازش کی گئی اور ان کی حکومت گرائی گئی۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کو لندن پلان کا پہلے سے علم تھا جس کا مقصد پی ٹی آئی کو ’’بلڈوز‘‘ کرنا تھا،ع نواز شریف امپائر سے ملی بھگت سے کھیلتے ہیں۔ وہ اس وقت تک الیکشن نہیں لڑ سکتے جب تک کہ ان کے پاس اپنی پسند کا امپائر نہ ہو۔
انہوں نے مزید کہا کہ عدالت نے مدعا علیہان کے اعتراضات مسترد کرتے ہوئے عمران خان اور شاہ محمود قریشی پر فرد جرم عائد کی، وکیل کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی چیئرمین اور شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جب تک کیس سے متعلق تمام دستاویزات نہیں مل جاتیں وہ الزامات کا جواب نہیں دے سکتے‘۔
وکیل نے مزید کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی اڈیالہ جیل میں ورزش کے لیے سائیکل فراہم کرنے کی درخواست منظور کرلی گئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے جیل انتظامیہ کو جیل میں سائیکل فراہم کرنے کی ہدایت کی۔
یاد رہے کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے 30 ستمبر کو عدالت میں چالان جمع کرایا تھا جس میں مبینہ طور پر عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت سائفر کا خفیہ متن افشا کرنے اور سائفر کھو دینے کے کیس میں مرکزی ملزم قرار دیا تھا۔
ایف آئی اے نے چالان میں 27 گواہان کا حوالہ دیا، مرکزی گواہ اعظم خان پہلے ہی عمران خان کے خلاف ایف آئی اے کے سامنے گواہی دے چکے ہیں۔
اعظم خان نے اپنے بیان میں مبینہ طور پر کہا تھا کہ عمران خان نے اس خفیہ دستاویز کا استعمال عوام کی توجہ عدم اعتماد کی تحریک سے ہٹانے کے لیے کیا جس کا وہ اُس وقت بطور وزیر اعظم سامنا کر رہے تھے۔
خیال رہے کہ اس کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی 10 اکتوبر تک جوڈیشل ریمانڈ پر راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہیں، کیس کی گزشتہ سماعت اٹک جیل میں ہوئی تھی جس کے بعد انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات پر اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا تھا۔
سائفر کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی، اسی کیس میں سابق وزیر اعظم اور وائس چیئرمین پی ٹی آئی 26 ستمبر تک جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں ہیں۔
پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس سائفر میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی۔
ایف آئی اے کی جانب سے درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی ار) میں شاہ محمود قریشی کو نامزد کیا گیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 5 (معلومات کا غلط استعمال) اور 9 کے ساتھ تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
ایف آئی آر میں 7 مارچ 2022 کو اس وقت کے سیکریٹری خارجہ کو واشنگٹن سے سفارتی سائفر موصول ہوا، 5 اکتوبر 2022 کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشت گردی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر اور ان کے معاونین کو سائفر میں موجود معلومات کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرکے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال کر اپنے ذاتی مفاد کے حصول کی کوشش پر نامزد کیا گیا تھا۔
اس میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین خفیہ کلاسیفائیڈ دستاویز کی معلومات غیر مجاز افراد کو فراہم کرنے میں ملوث تھے۔
سائفر کے حوالے سے کہا گیا کہ ’انہوں نے بنی گالا (عمران خان کی رہائش گاہ) میں 28 مارچ 2022 کو خفیہ اجلاس منعقد کیا تاکہ اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے سائفر کے جزیات کا غلط استعمال کرکے سازش تیار کی جائے‘۔
مقدمے میں کہا گیا کہ ’ملزم عمران خان نے غلط ارادے کے ساتھ اس کے وقت اپنے پرنسپل سیکریٹری محمد اعظم خان کو اس خفیہ اجلاس میں سائفر کا متن قومی سلامتی کی قیمت پر اپنے ذاتی مفاد کے لیے تبدیل کرتے ہوئے منٹس تیار کرنے کی ہدایت کی‘۔
ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ وزیراعظم آفس کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے جان بوجھ کر غلط ارادے کے ساتھ اپنے پاس رکھی اور وزارت خارجہ امور کو کبھی واپس نہیں کی۔
مزید بتایا گیا کہ ’مذکورہ سائفر (کلاسیفائیڈ خفیہ دستاویز) تاحال غیر قانونی طور پر عمران خان کے قبضے میں ہے، نامزد شخص کی جانب سے سائفر ٹیلی گرام کا غیر مجاز حصول اور غلط استعمال سے ریاست کا پورا سائفر سیکیورٹی نظام اور بیرون ملک پاکستانی مشنز کے خفیہ پیغام رسانی کا طریقہ کار کمپرومائز ہوا ہے‘۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’ملزم کے اقدامات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچا اور اس سے ریاست پاکستان کو نقصان ہوا۔
ایف آئی اے میں درج مقدمے میں مزید کہا گیا کہ ’مجاز اتھارٹی نے مقدمے کے اندراج کی منظوری دے دی، اسی لیے ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ اسلام آباد پولیس اسٹیشن میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 ساتھ مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشنل خفیہ معلومات کا غلط استعمال اور سائفر ٹیلی گرام (آفیشل خفیہ دستاویز)کا بدنیتی کے تحت غیرقانونی حصول پر درج کیا گیا ہے اور اعظم خان کا بطور پرنسپل سیکریٹری، سابق وفاقی وزیر اسد عمر اور دیگر ملوث معاونین کے کردار کا تعین تفتیش کے دوران کیا جائے گا‘۔