اسلام آباد: (سچ خبریں) آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) نے دفاعی سروسز کے مختلف شعبوں میں سنگین مالی بے ضابطگیوں، غیر شفاف خریداریوں اور غیر مجاز اخراجات کو اجاگر کرتے ہوئے متعلقہ حکام سے اندرونی کنٹرول کو بہتر بنانے اور ذمہ داران کا تعین کرنے کے لیے انکوائری شروع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق آڈٹ سال 2024-2023 کے لیے ڈیفنس سروسز کے اکاؤنٹس پر اپنی آڈٹ رپورٹ میں آڈیٹر جنرل نے 300 سے زائد صفحات پر مشتمل آڈٹ اعتراضات شائع کیے، جن میں عدم وصولی، زائد اور پیشگی ادائیگی، خریداری سے متعلق بے ضابطگیاں، ریاست کو ہونے والے نقصانات اور ریکارڈ کی عدم فراہمی شامل ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ وزارت دفاع کو ایک سنگل لائن بجٹ گرانٹ ملتی ہے جو وزارت دفاعی پیداوار، سروسز ہیڈ کوارٹرز، انٹر سروسز آرگنائزیشنز اور اسٹریٹجک پلاننگ ڈویژن میں تقسیم کی جاتی ہے، وزارت دفاع کے انتظامی کنٹرول کے تحت مسلح افواج جس میں فوج، بحریہ اور فضائیہ شامل ہیں، کا بنیادی کام ملک کی علاقائی سالمیت کا دفاع کرنا اور ضرورت پڑنے پر سول انتظامیہ کی مدد کرنا ہے۔
آڈٹ میں 566.29 ارب روپے کے اخراجات کا احاطہ کیا گیا جس میں مالی سال 23-2022 کے آڈٹ کے دوسرے مرحلے کے دوران 335.63 ارب روپے اور مالی سال 24-2023 آڈٹ کے پہلے مرحلے میں 230.66 ارب روپے شامل ہیں۔
آڈٹ نے دفاعی خدمات کے ضوابط کی عدم تعمیل کی نشاندہی کی جس میں رننگ اکاؤنٹ ریسیٹس (آر اے آرز) کے ذریعے کام کی تکمیل سے قبل پیشگی ادائیگیوں، مالی اختیارات کی تقسیم، کرایہ اور متعلقہ چارجز کی عدم وصولی، قابل اطلاق ٹیکسوں کی عدم کٹوتی، پبلک پروکیورمنٹ کے قوانین کی خلاف ورزی، اے ون زمین کی پالیسی کی عدم تعمیل اور غیر مجاز کام کی انجام دہی جیسے اہم مسائل شامل ہیں۔
اس میں کہا گیا ہے کہ دفاعی سروسز کو مالی سال 2022-23 کے اصل بجٹ کے طور پر 15.63 کھرب روپے مختص کیے گئے تھے، جسے بعد میں سپلیمنٹری گرانٹس کے ذریعے بڑھا کر 15.92 کھرب روپے کر دیا گیا، آڈٹ رپورٹ میں گزشتہ 40 سال کے دوران آڈٹ اعتراضات کے ساتھ دفاعی فارمیشنز کی ناقص تعمیل کی شرح پر تشویش کا اظہار کیا گیا جس میں کہا گیا کہ کورس کو درست کرنے اور اکاؤنٹس کو ریگولرائز کرنے کی کوششیں ناکافی ہیں۔
1985 سے لے کر اب تک کا ٹیبل شدہ ریکارڈ دیتے ہوئے آڈیٹر جنرل نے نوٹ کیا کہ وزارت دفاع نے 1974 میں سے پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کی 659 ہدایات کی تعمیل کی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی اے سی کی ہدایات کی تعمیل بہت سست ہے، پرنسپل اکاؤنٹنگ افسر کو پی اے سی کی ہدایات کی تعمیل میں تیزی لانے کے لیے ضروری اقدامات کرنے چاہئیں۔
وزارت دفاعی پیداوار کی کارکردگی بھی کوئی بہتر نہیں کیونکہ اس نے پی اے سی کی 372 میں سے صرف 109 ہدایات کی تعمیل کی۔
رپورٹ میں اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ پرنسپل اکاؤنٹنگ افسر (متعلقہ وزارت کے وفاقی سیکریٹری) کو پی اے سی کی ہدایات کی تعمیل میں تیزی لانے کے لیے ضروری اقدامات کرنے چاہئیں کیونکہ یہ عوامی پیسے سے متعلق ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ کچھ آرمی فارمیشنز کے آڈٹ کے دوران ریکارڈ میں یہ دیکھا گیا ہے کہ خریداری متعلقہ قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کی گئی، بعض صورتوں میں پروکیورمنٹ اور کنٹریکٹ کے کاموں کو کئی حصوں میں تقسیم کیا گیا اور ایک ہی دن پسندیدہ ٹھیکیداروں یا سپلائرز کو دے دیا گیا تاکہ شفاف بولی کو نظرانداز کیا جا سکے۔
کچھ معاملات میں آڈیٹرز کی پوچھ گچھ پر انتظامیہ نے رپورٹ کیا کہ پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی (پی پی آر اے) کی ویب سائٹ کے ذریعے اشتہارات دیئے گئے تھے جبکہ اخبارات میں اشتہارات نہیں دیے گئے کیونکہ دفاعی کام خفیہ نوعیت کا تھا۔
دوسرے معاملات میں دکانوں کے لیے پروکیورمنٹ کی نوعیت کی وجہ سے بولی نہیں دی گئی، تاہم آڈیٹرز نے نشاندہی کی کہ خفیہ نوعیت کے کام کے معاملات میں سیکریٹری دفاع کو بطور پرنسپل اکاؤنٹنگ افسرپروکیورمنٹ رولز سے استثنیٰ دینے کا اختیار تھا، آڈیٹر کے اصرار کے باوجود اسے نہ تو خریداری کے وقت یقینی بنایا گیا اور نہ ہی آڈٹ کے بعد۔
آڈٹ رپورٹ نے بار بار ریکارڈ پرکھا کہ متعلقہ حکام کے جوابات قابل عمل نہیں کیونکہ پی پی آر اے کے ذریعے اشتہارات سے متعلق کوئی دستاویزی ثبوت آڈٹ کے لیے پیش نہیں کیا گیا۔
مزید برآں، صرف سیکریٹری دفاع ہی ایسے معاملات میں پبلک پروکیورمنٹ رولز سے استثنیٰ دے سکتا ہے جہاں خریداری حساس یا فوری نوعیت کی ہو، تاہم اس طرح کی کوئی منظوری نہیں ملی۔
آڈیٹر جنرل نے اطلاع دی کہ ڈیپارٹمنٹل آڈٹ کمیٹی (ڈی اے سی)، جو وفاقی سیکریٹری کی نگرانی میں آڈیٹرز اور متعلقہ حکام کو اکٹھا کرتی ہے، نے ذمہ داری کا تعین کرنے کے لیے کورٹ آف انکوائری یا فیکٹ فائنڈنگ انکوائری کے انعقاد کی سفارش کی، ڈیپارٹمنٹل آڈٹ کمیٹی نے یہ بھی ہدایت کی کہ اخراجات کو مجاز اتھارٹی کے ذریعے ریگولرائز کیا جائے، تاہم، سالانہ آڈٹ رپورٹ کے شائع ہونے تک ان ہدایات پر کئی مہینوں تک عمل نہیں کیا گیا۔
پروکیورمنٹ ریگولیشنز کے مطابق، 5 لاکھ روپے سے زیادہ کی تمام پروکیورمنٹس کو پی پی آر اے کی ویب سائٹ پر ایک مقررہ طریقے سے مشتہر کیا جانا چاہیے، تاہم، مالی سال 22-2021اور 23-2022 کے لیے آرمی فارمیشنز کے آڈٹ کے دوران یہ پایا گیا کہ کئی پروکیورمنٹس نے ان قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔
ایک آڈٹ اعتراض کے جواب میں انتظامیہ نے جواب دیا کہ مالی سال کے اندر خریداری ڈپو کے کیپیریٹیو اسٹیٹمنٹ (سی ایس ٹی) کا استعمال کرتے ہوئے کی گئی، اور اس سے کوئی انحراف نہیں کیا گیا، یہ ناقابل قبول ہے کیونکہ ڈپو کے ذریعہ منظور شدہ سی ایس ٹی کا کوئی دستاویزی ثبوت پیش نہیں کیا گیا، یہ بھی پتا چلا کہ مختلف ٹھیکیداروں کو ایک ہی ریٹ پر آرڈر جاری کیے گئے جو کہ طرف داری کی نشاندہی کرتے ہیں۔
ایک اور کیس میں آرمی اسکول شامل تھا جہاں فنڈز ایک غیر ملکی ٹرینیز میس شیڈ کی تزئین و آرائش پر خرچ کیے گئے اور بغیر رسمی معاہدے یا تخمینوں کے اسٹورز کی خریداری پر خرچ کیے گئے، یہ کام ملٹری انجینئرنگ سروسز (ایم ای ایس) سے ضروری منظوری حاصل کیے بغیر انجام دیا گیا جس سے اخراجات میں بے قاعدگی ہوئی۔
مزید برآں، آڈٹ میں انکشاف ہوا کہ ایک آرمی فارمیشن میں، مسابقتی بولی کے عمل کو نظر انداز کرتے ہوئے کم ترین بولی سے تقریباً تین گنا زیادہ قیمتوں پر ٹھیکیداروں کو خریداری کے آرڈر جاری کیے گئے۔
ڈائریکٹوریٹ جنرل پروکیورمنٹ آرمی کے قوانین ہر کنسائنی ڈپارٹمنٹ میں مجاز اتھارٹی کے ذریعے 5 فیصد سپر چیک کے ساتھ 100 فیصد چیک لازمی قرار دیتے ہیں، تاہم، آڈٹ نے نوٹ کیا کہ کیش رسید واؤچرز (سی آر ویز) اشیا وصول کیے بغیر جاری کیے گئے اور 5 فیصد سپر چیک سرٹیفکیٹ بھی جاری کیے گئے۔