اسلام آباد: (سچ خبریں) آئی ایم ایف کا پروگرام بحال کرنے کی کوشش میں حکومت نے فنانس ایکٹ 2023 کے ذریعے ٹیکس کے نئے اقدامات متعارف کرائے ہیں، جن کا اثربلڈرز، ڈویلپرز اور ڈی اے پی کھاد کی فروخت پر پڑے گا۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق ان اقدامات میں بلڈرز اور ڈویلپرز پر ایڈوانس انکم ٹیکس اور ڈی اے پی کھادوں پر 5 فیصد سیلز ٹیکس کا نفاذ شامل ہے، ان ترامیم کا مقصد ٹیکسوں کی مد میں 2 کھرب 15 ارب روپے اضافی اکٹھا کرنا ہے۔
تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کی کم از کم شرح ڈھائی فیصد جبکہ زیادہ سے زیادہ شرح 32.5 فیصد سے بڑھا کر 35 فیصد کر دی گئی ہے، ریفارمز اینڈ ریسورس موبلائزیشن کمیشن کے چیئرمین اشفاق تولہ نے تنخواہوں پر ٹیکس لگانے کے نظرثانی شدہ ٹیکس سلیب کے اثرات کا جائزہ لیا۔
خیال رہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف کے دباؤ میں فنانس ایکٹ 2023 کے ذریعے نظر ثانی شدہ ترامیم نافذ کرتے ہوئے 9 جون کے اپنے سابقہ فیصلوں کو تبدیل کر دیا تھا۔
اس کی تفصیلات کے مطابق رہائشی، کمرشل یا دیگر عمارتوں کی تعمیر یا فروخت کے ساتھ ساتھ رہائشی، کمرشل یا دیگر پلاٹوں کی ترقی اور فروخت کے کاروبار سے آمدنی حاصل کرنے والا ہر فرد اب خاص منصوبے کے لحاظ سے ایڈجسٹ ایبل پیشگی ٹیکس ادا کرنے کا پابند ہو گا، نئی نوٹیفائیڈ ٹیکس کی شرحوں کی بنیاد پر یہ ٹیکس پورے ٹیکس سال میں 4 مساوی اقساط میں ادا ہونا چاہیے۔
حکومت نے سیکشن ای 7 کے تحت خالص آمدنی پر ٹیکس سے استثنیٰ حاصل کرنے کو ٹیکس ریٹرن فائل کرنے اور فعال ٹیکس دہندگان کی فہرست میں ظاہر ہونے سے منسلک کیا ہے۔
اس کے علاوہ کسی بھی غیر منقولہ جائیداد کی منتقلی کے اندراج، ریکارڈنگ، یا تصدیق کرنے والا شخص یہ کام اس وقت نہیں کرسکتا جب تک کہ بیچنے یا منتقل کرنے والا فرد سیکشن 7 ای کے تحت اپنے واجبات ادا نہ کرلے، اس کے لیے بیچنے یا منتقل کرنے والے کو اس ذمہ داری کی تکمیل کا ثبوت متعلقہ شخص کو مقررہ طریقے کے ذریعے فراہم کرنا ہوگا۔
اس کے علاوہ ابتدائی طور پر 9 جون کی بجٹ تقریر میں جائیداد کے بیرونِ ملک مقیم پاکستانی خریداروں یا منتقل کرنے والوں کے لیے متعارف کرائی گئی ایڈوانس ٹیکس کی چھوٹ کو واپس لے لیا گیا ہے جبکہ گھروں کی تعمیر کے لیے بجٹ تقریر میں فراہم کردہ ٹیکس کریڈٹ بھی واپس لے لیا۔
ڈی اے پی سمیت تمام اقسام کی کھادوں پر اب 5 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد ہے، مزید برآں حکومت نے وفاقی دارالحکومت میں خدمات پر سیلز ٹیکس کی شرح کو 16 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد کرنے کے اپنے سابقہ فیصلے کو واپس لیتے ہوئے اسے دوبارہ 15 فیصد پر بحال کر دیا ہے۔
علاوہ ازیں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کے سالانہ منافع کی حد میں اضافے کو بھی بجٹ سے پہلے کی سطح پر کردیا گیا ہے جس میں چھوٹے کاروبار کی تعریف میں آئی ٹی یا آئی ٹی سے چلنے والی خدمات کو بھی شامل کرلیا گیا تھا۔ ونڈ فال آمدنی، منافع یا نفع پر ٹیکس صرف کمپنیوں تک محدود تھا اور یہ سابقہ اثر کے ساتھ 5 سال کے بجائے 3 سال کے لیے لاگو ہوگا۔
10 کروڑ روپے یا اس سے زائد کے ٹیکس واجبات کے تنازعات حل کرنے کے لیے آلٹرنیٹ ڈسپیوٹ ریزولیشن کمیٹی قائم کی جائے گی۔
ان کے ساتھ بجٹ تقریر میں متعارف کرائی گئی مزید استثنیٰ بھی واپس لے لیے گئے ہیں، جن میں مانع حمل ادویات اور متعلقہ اشیا، پودے، کمبائنڈ ہارویسٹر تھریشر، زرعی مصنوعات کے لیے ڈرائر، نو-ٹل ڈائریکٹ سیڈر، پلانٹرز، ٹرانس پلانٹر اور دیگر پلانٹرز پر دی گئی چھوٹ شامل ہے، تاہم گندم کے چوکر پر سابقہ اثر کے ساتھ یکم جولائی 2018 سے چھوٹ کی اجازت دی گئی ہے۔
علاوہ ازیں ایک فیصد کے فکسڈ ٹیکس اور ان پٹ ٹیکس ایڈجسٹمنٹ پر پابندی کو ایکٹیو فارماسیوٹیکل اجزا کے ادویات اور خام مال کے معاملے میں سپلائی چین تک بڑھا دیا گیا ہے، اس سے پہلے فکسڈ ٹیکس نظام صرف درآمد کنندگان اور مینوفیکچررز پر لاگو ہوتا تھا۔