اسلام آباد: (سچ خبریں) پاکستان کے تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے تاجروں نے اصلاحات اور تبدیلی کے روڈ میپ کے طور پر حکومت کی جانب سے ’اڑان پاکستان‘ کے اقدام کا خیرمقدم کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اصل چیلنج اس پر عمل درآمد کروانا ہوگا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اوورسیز انویسٹرز چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (او آئی سی سی آئی) کے چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) ایم عبدالعلیم نے کہا کہ اصل چیلنج واضح طور پر متعین ایکشن پلان کے ساتھ اس کے حقیقی نفاذ کا ہے۔
انہوں نے یاد دلایا کہ ماضی میں بھی اسی طرح کے منصوبے شروع کیے گئے تھے، لیکن پالیسی میں تضادات، محدود ٹیکس بیس، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) جیسے اداروں میں اصلاحات کی خواہش کی کمی، نااہل سرکاری اداروں کو مرحلہ وار ختم کرنے میں تاخیر اور گورننس کے معیار کو بلند کرنے میں ناکامی کی وجہ سے ناکام رہے۔
عبدالعلیم نے حکومت پر زور دیا کہ وہ ’اڑان پاکستان‘ کے تحت اہداف کا تعین کرنے سے قبل نجی شعبے سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ رابطے میں رہے اور انہیں اعتماد میں لے۔
انہوں نے کہا کہ او آئی سی سی آئی ’اڑان پاکستان‘ کے وژن کو حقیقت کا روپ دینے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے، لیکن اس اقدام کی کامیابی کے لیے اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بامعنی مصروفیت اہم ہے۔
آج کی گئی ’فیصلہ کن کارروائی‘ ہمیں طویل المدت ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے۔
پاکستان بزنس کونسل (پی بی سی) کے سی ای او احسان ملک نے کہا کہ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے ’اڑان پاکستان‘ کے آغاز پر اپنی تقریر میں درست کہا تھا کہ ماضی میں اس طرح کے تمام پروگرامز کی منسوخی اور عمل درآمد کے درمیان ایک بڑا فرق رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ ملک کو زندگی کے تمام شعبوں میں تنظیم نو کی ضرورت ہے، لیکن کوئی بھی ان قربانیوں کے لیے تیار نہیں ہے، جو انقلابی تبدیلی کا تقاضا کرتی ہیں۔
احسان ملک نے کہا کہ اس جمود اور تسلسل کی عدم موجودگی میں ’اڑان پاکستان‘ کا سب سے مفید عنصر مجوزہ عملدرآمد فریم ورک ہے، جس پر اگر تندہی سے عمل کیا جائے تو اس کے نتیجے میں بامعنی پیش رفت ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ اس فریم ورک کا سب سے اہم حصہ پاکستان صد سالہ 2047 لیب اور چیمپیئنز آف ریفارمز نیٹ ورک ہیں، جس کا مقصد نجی اور سرکاری شعبوں کو ایک مشترکہ وژن کے حصول کے لیے کام کرنے کی غرض سے یکجا کرنا ہے۔
پی بی سی کے سی ای او نے مزید کہا کہ وزارت منصوبہ بندی کے نیشنل اکنامک ٹرانسفارمیشن یونٹ کے لیے وزیراعظم آفس، وفاقی وزارتوں اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر پالیسیوں اور اقدامات کو ہم آہنگ کرنے کے لیے کافی کام کیا جائے گا۔
احسان ملک نے کہا کہ تاجروں کو بہت ساری وزارتوں سے نمٹنا ’درد سر‘ لگتا ہے، گویا یہ کافی نہیں تھا، محصولات کا ہدف مکمل کرنے کے لیے طویل مدتی منصوبوں کو چھوڑ دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ہماری دلی خواہش ہے کہ ’اڑان پاکستان‘ کو خود کو ثابت کرنے کا مناسب موقع دیا جائے، اگر اس اقدام کو کامیاب بنانا ہے تو وزیر اعظم کو مؤثر نگرانی اور احتساب کو یقینی بنانا ہوگا۔
احسان ملک نے کہا کہ اعتماد کی بحالی کے لیے کچھ اقدامات ضروری ہیں، تاکہ نجی شعبے کو سرکاری شعبے کے ساتھ شراکت داری پر آمادہ کیا جاسکے، انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک نے نجی شعبے کو ’خوفزدہ‘ کر دیا ہے۔
پی بی سی کے سی ای او نے کہا کہ برآمدات کو فروغ دینے کے لیے مسابقتی توانائی کی اہمیت کو خاص طور پر اجاگر نہیں کیا گیا تھا، اور نہ ہی اسے کہ ہماری برآمدی منڈیوں میں دوسرے ممالک کے ساتھ مقابلہ کرنے میں مراعات کا موازنہ کیا کردار ادا کرسکتا ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا تھا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو تبدیل کرنے کے لیے ’عوام، پراسس اور ٹیکنالوجی‘ کا نقطہ نظر اپنایا جائے گا، یہ نقطہ نظر اڑان پاکستان کے تمام مقاصد کے ساتھ ساتھ تمام وفاقی اور صوبائی حکومتی اداروں پر یکساں طور پر لاگو ہے۔
ایف پی سی سی آئی کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی کے کنوینر ملک خدا بخش نے کہا کہ ٹیکس کی شرح کم کرنے سے نہ صرف محصولات میں اضافہ ہوگا، بلکہ ٹیکس چوری میں کمی آئے گی اور ٹیکس دہندگان کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ یہ منصوبہ صرف اسی صورت میں کامیاب ہوسکتا ہے جب تمام قومی ادارے اور حکومت مل کر کام کریں۔